ہم نے جنرل بشرف کا تازہ انٹرویو جیو پر سنا جو ان کے دور اقتدار والے انٹرویوز سے ایک سو اسی درجے الٹ تھا۔ کہاں جنرل بشرف کی کھنکتی آواز اور کہاں اب دھیماپن۔ کہاں عقاب جیسی شاطر آنکھیں اور کہاں لٹی ہوئی غیرت والوں کی طرح جھکی ہوئی نظریں۔ کہاں چہرے پر وجاہت اور کہاں شرابیوں والا مرجھایا ہوا منہ۔ کہاں انٹرویو کرنے والے کی خبر لینا اور کہاں انٹرویو لینے والی کے سامنے بھیگی بلی بن کر بیٹھنا۔

لگتا ہے شراب نے جہاں جنرل بشرف کی ظاہری شکل متاثر کی ہے وہیں ان کے ذہن کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ وگرنہ سیاست میں داخل ہونے والا کبھی نازک معاملات پر اپنا منہ نہیں کھولے گا جس طرح جنرل بشرف نے ڈاکٹر قدیر، اکبر بگٹی اور چوہدریوں کے خلاف ہرزہ سرائی کی ہے۔ کشمیر کی آزادی کی تحریک پر جنرل بشرف کی بیان بازی پاگل پن کے سوا کچھ نہیں۔ گر جنرل بشرف ہوش میں ہوتے تو وہ کبھی اپنے مخالفین کی ذاتی برائیوں کو زیربحث نہ لاتے بلکہ پاکستان کے بگڑتے سیاسی حالات کو موضوع بحث بناتے۔ اپنے پرانے سیاسی حلیفوں کی دل آزاری کی بجائے انہیں ساتھ ملانے کی کوشش کرتے۔ اب جب ان کیساتھ ق لیگ بھی نہیں ہے تو پھر عمران خان اور شیخ رشید کی طرح اپنی پارٹی کے وہ اکیلے ہی لیڈر ہوں گے۔ اگلے انتخابات میں سیٹ ملنا تو درکنار وہ جس طرح کی زبان درازی پر اتر آئے ہیں ان کے ملک واپس آنے کا بھی امکان کم ہے۔

اب تو بہتری اسی میں ہے کہ وہ اپنے مرنے کی دعائیں مانگا کریں تا کہ ان کی مزید مٹی پلید ہونے سے بچ جائے۔