اس میں کوئی شک نہیں کہ جعلساز کا ساتھ دینے والا بھی جعلساز ہوتا ہے۔ حکومت کی جعلسازی کی انتہا دیکھیے کہ ایک انٹر پاس عدنان خواجہ نامی آدمی کو او جی ڈی سی کا ایم ڈی بنایا گیا اور وہ بھی وزیراعظم کے زبانی حکم پر۔ یہ وہ وزیراعظم ہیں جو کہتے ہیں کہ اگر جعلی ڈگری ہولڈر وزرا کی چھٹی کرائی گئی تو پورا ایوان خالی ہو جائے گا۔ اس وقت ہائیر ایجوکیشن کمیشن 55 ارکان اسمبلی کی ڈگریاں جعلی قرار دے چکا ہے مگر وہ سب کے سب ابھی بھی ایوان میں بیٹھے ہیں۔ اس کے بعد ایچ ای سی نے باقی ڈگریوں کی تصدیق کرنے سے یہ کہہ کر معذرت کر لی ہے کہ یونیورسٹیاں تعاون نہیں کر رہیں اور باقی کے ارکان اسمبلی بھی میڑک اور انٹر کی ڈگریاں جمع نہیں کرا ہے۔

واہ ری بدکردار حکومت اور اس کے حمایتی سب کے سب چور اور جعلساز ہیں۔ حکومت میں اتنی سکت نہیں کہ وہ جعلی ڈگری ہولڈروں کو فارغ کر سکے۔ الیکشن کمیشن میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ جعلی ڈگری رکھنے والے ارکان کی رکنیت ختم کر سکے۔ عدالتوں میں اتنی سکت نہیں کہ وہ سوموٹو ایکش لے سکیں۔ فوج میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ ان جعلسازوں سے ایوان کو پاک کر سکے۔ حزب اختلاف میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ اس جعلسازی کیخلاف عوام کو سڑکوں پر لا سکیں۔ سب سے بڑی بات عوام میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ ان جعلسازوں کو ایوان سے باہر دھکا دے سکیں۔ تبھی تو جعلساز ملک میں راج کر رہے ہیں اور غریب بیچارے مر رہے ہیں۔