آج قوم اس فوج کا دن منا رہي ہے جس نے بقول ہمارے پاکستان کا دفاع 1965 ميں کيا تھا مگر تاشقند ميں فوج کا سربراہ جنگ ہار آيا تھا۔ امريکہ نے اس وقت بھي ہميں مايوس کيا تھا اور کوئي مدد نہيں کي تھي۔
فوج کےجوانوں نے تو جان پر کھيل کر ملک کا دفاع کياتھا کيونکہ ان کي تر بيّت ہي ايسي ہوئي تھي مگر ان کا سربراہ جو سي آئي اے کا ايجينٹ تھا کسي اور ايجنڈے پر عمل کر رہا تھا۔ کتنے شرم کي بات ہے کہ جن کے ليۓ وہ کام کر رہا تھا انہوں نے ہي اس کي مدد نہ کي۔
جس طرح ہم سب کي زندگيوں ميں دوغلہ پن ہے اسي طرح ہماري فوج بھي دو طرح کے معيار رکھتي ہے۔ عام سپاہي کے لۓ اور معيار ہے اور آفيسر کے لۓ اور ہے۔ ہمارے عام جوجي کے لۓ مساجد بنائي گئي ہيں جہاں اس کو نماز پڑھنے پر لگا ديا گيا ہے مگر دوسري طرف فوجي آفيسر بلا کے عيّاش ہوتے ہيں اور اکثر شراب ميں دھت رہتے ہيں۔ جوں جوں فوجي آفيسر عہدے پھلانگتے جاتے ہيں ان کي عيّاشيوں ميں اضافہ ہوتا جاتا ہے اور فوج کا سربراہ وہ مقرّر ہوتا ہے جس ميںدنيا جہان کي برائياں ہوتي ہيں۔ مثلأ وہ غدّار ہو جاتا ہے اور امريکہ کيلۓ کام شروع کر ديتا ہے۔ وہ ريگولر شرابي ہوتا ہے۔ اس کے پاس بے پناہ دولت آجاتي ہے اور وہ دنيا کا سب سے امير تريں جنرل ريٹائر ہوتا ہے۔ اس کے لۓ ملک کے دو ٹکڑے کرنا معمولي بات ہو تي ہے۔ وہ جب چاہے اپنے زبان سے پھر سکتا ہے اور اس کي زبان ميں اس کا ہرکام ملک کے مفاد ميں ہوتا ہے۔
مگرايک دن ضرور آۓ گاجب ملک کا فوجي اور آفيسر ايک ہوں گے اور ان کے قول اور فعل ايک جيسے ہوں گے۔
اگر فوج کا موجودہ سيٹ اپ ديکھا جاۓ تو ساري صورتحال سمجھ ميں آجاتي ہے۔آج کي فوج کي موجودہ صورتحال پر يہ شعر صادق آتا ہے۔
اپني عوام کو ہي تسخير کر کے فوج
فتح کا جشن مناتي رہي رات بھر