روزنامہ جنگ نے جسٹس بھگوان داس کی آمد کی لمحہ بہ لمحہ خبر دیتے ہوئے مطلع کیا ہے کہ جسٹس بھگوان داس کی آمد کے فوراً بعد کچھ اہم شخصیات نے ان سے طیارے کے کاک پٹ میں آدھ گھنٹہ ملاقات کی۔ ہم اب تک اس مخمصے کا شکار ہیں کہ وہ اہم شخصیات کون تھیں اور انہوں نے جسٹس بھگوان داس کے طیارے سے اترنے کا انتظار کیوں نہیں کیا۔ اہم شخصیات اگر چاہتیں تو وہ جسٹس بھگوان داس کو طیارے سے اترنے دیتیں،  پھر انہیں اپنے گھر جانے دیتیں اور وہاں پر ان سے ملاقات کرتیں۔ ہماری نظرمیں یہی طریقہ شائستہ اور مہذب تھا۔ اب جسٹس بھگوان داس کو کاک پٹ میں کونسی اہم ہدایات دی گئیں جو انہیں گھر پر یا ان کے دفتر میں نہیں دی جاسکتی تھیں یہ شائد ہم کبھی بھی نہ جان سکیں۔

کیا جسٹس بھگوان داس کو طیارے سے اترنے سے پہلے ہی دھمکانے کی کوشش تو نہیں کی گئ جو ان کے قائم مقام چیف جسٹس بننے کے بعد مشکل ہوجاتی؟

کیا جسٹس بھگوان داس کو ان کے باس کی طرح دفتر میں بلانے کی بجائے طیارے کے کاک پٹ میں ہی تو آئینہ نہیں دکھایا گیا یعنی بتایا گیا ہو کہ اگر آپ نے حکومت کا ساتھ نہ دیا تو آپ کے خلاف بھی ریفرنس دائر کیا جاسکتا ہے۔

کیا جسٹس بھگوان داس کو اقلیتی رکن ہونے کا طعنہ دے کر دبانے کی کوشش تو نہیں کی گئ؟

کیا اہم شخصیات نے جسٹس بھگوان داس کو کسی قسم کا لالچ تو نہیں دیا یعنی اگر انہوں نے حکومت کا ساتھ دیا تو وہ ہمیشہ کیلئے چیف جسٹس بنے رہیں گے؟

اہمیت شخصیات کی ملاقات کا مقصد جو بھی ہو اب پانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا ہے۔ اب وقت آچکا ہے کہ لوگ اپنے باشعور ہونے کا ثبوت دیں گے اور غیر جمہوری حکومت کو بتا دیں گے کہ ان کی خاموشي کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ حکومت کی کارکردگی پر نظر نہیں رکھے ہوئے تھے بلکہ وہ یہ جان کر خاموش تھے کہ ان کے احتجاج کا حکومت پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ لیکن اب پاکستانی عوام کو ان کے وکیلوں نے لیڈ کرکے بتا دیا ہے کہ عوام کے پاس اب بھی طاقت ہے اور وہ اگر چاہیں تو غیر جمہوری حکومت کو ناکوں چنے چبا سکتی ہے۔ اب جسٹس بھگوان داس کیا کوئی اور جسٹس بھی اس تحریک کو روک نہیں پائے گا جس کا مقصد عدلیہ کو بااختیار بنانا اور اس کی آزادی کو برقرار رکھنا ہے۔

حکومت نے آج کوشش کی ہے کہ وہ احتجاج کو طقت سے نہ روکے اور لوگوں کو احتجاج کی شکل میں اپنے دل کا غبار نکالنے دے مگر حکومت یاد رکھے اب یہ احتجاج رکنے والا نہیں۔ اس احتجاج کو روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے عدلیہ کے اختیارات اور عظمت کی بحالی۔