ایکپریس کیمطابق چیئرمین سی بی آر نے کہا ہے کہ ملک معاشی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ حکومت اپنے انتظامی اخراجات بھی پورے نہیں کر پا رہی۔ معیشت بند گلی میں داخل ہو گئی ہے۔ بجلی گیس کے بحران نے ملکی صنعت کو تباہ کر دہا ہے۔ اب صنعت کار چین سے بنی بنائی اشیا منگواتے ہیں اور ان پر اپنا لیبل لگا کر فروخت کر دیتے ہیں۔ اس طرح پاکستان میں مزدور طبقہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔

ملک کو معاشی تباہی سے بچانے کا حل یہی ہے کہ حکومت اپنے انتظامی اخراجات نوے فیصد کم کر دے۔ ملک کا صدر اگر امریکہ کے دورے پر جائے تو اپنے ذاتی خرچ پر جائے۔ اسی طرح تمام امیر وزراء اور اراکین اسمبلی سرکار پر بوجھ بننے کی بجائے اپنی جیب سے اخراجات برداشت کریں۔ حکومت بڑی بڑی عمارتوں سے عام عمارتوں میں اپنے دفاتر منتقل کر لے اور خالی ہونے والی عمارتوں کو کاروباری لوگوں کو کرائے پر دے دے۔

 مگر ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ اس لیے یقین یہی ہے کہ نہ حکمران سدھریں گے اور نہ ملک کی معاشی تباہی رک پائے گی۔ اس تباہی سے پھر انقلاب اٹھے گا۔ مگر یہ انقلاب ابھی بہت دور ہے کیونکہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ ملک نہ ہی ترقی کرے اور نہ ہی معاشی بدحالی کا شکار ہو۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ملک کو اتنی امداد دیتے رہیں گے جس سے انقلاب کو جتنی دیر تک موخر کیا جا سکے کرتے رہیں۔

آپ بتائیں اس معاشی تباہی کو کیسے ترقی میں بدلا جا سکتا ہے؟