کل جامعہ حفصہ کی طالبات نے آنٹی شمیم، اس کی جوان بیٹی اور بہو کو ان کے گھر سے اٹھایا اور مدرسے میں لا کر بند کردیا۔ اس کے جواب میں حکومت نے سکول کی دو استانیوں، ان کے ڈرائیور اور نوکر کو گرفتار کرلیا۔ پھر اس کے جواب میں جامعہ حفصہ کی طالبات نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے دو پولیس والوں کو ان کی گاڑیوں سمیت اغوا کیا اور مدرسے میں بند کردیا۔ اس کے بعد حکومت نے جامعہ حفصہ کی انتظامیہ اور طالبات سے مذاکرات شروع کیے اور دونوں فریقین نے ایک دوسرے کے قیدیوں کو رہا کردیا۔ لیکن آنٹی شمیم اور اس کی فیملی ابھی تک جامعہ حفصہ میں طالبات کے قبضہ میں ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ تب تک انہیں نہیں چھوڑیں گےجب تک وہ راہ راست پر نہیں آجاتیں۔

اخباری رپورٹوں کے مطابق اس مڈبھیڑ کا آغاز تب شروع ہوا جب طالبات نے اسلام آباد میں ویڈیو شاپس کو گندی ویڈیوز کا کاروبار بند کرنے سے منع کرنے کی کوشش کی۔ ویڈیو والوں نے پاکستانی نیچر کے مطابق طالبات سے کہا اگر انہیں ہماری ننگی فلموں پر اتنا ہی اعتراض ہے تو وہ پہلے آنٹی شمیم کا قحبہ خانہ بند کریں۔ اس طرح ویڈیو والوں نے تو جان چھڑا لی مگر آنٹی شمیم کی کمبختی آگئ۔ طالبات نےپہلے آنٹي شمیم کو سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ اس قحبہ خانے کو بند کردے۔ آنٹی شمیم کو اپنی پہنچ پر ناز تھا اسلیے اس نے طالبات کی بات پر کان دھرنے کی بجائے انہیں جھاڑ پلا دی اور کہا ہوگا کہ جو کرنا ہے کر لو۔ اس کے بعد طالبات نے رات کو آنٹی شمیم کے قحبہ خانے پر ریڈ کیا اور اس کو بیٹی اور بہو سمیت اٹھا کر مدرسے میں لے آئیں۔

اب اس سارے واقعے کی جڑ پکڑنے کی کوشش کی جائے تو سرا انتظامیہ تک جاملتا ہے۔ محلے والوں کا دعویٰ ہے کہ وہ کئ بار آنٹی شمیم کے چکلے کی شکایت حکام کو کرچکے ہیں مگر کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ اس کیساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایک دفعہ کانسٹیبل آنٹي شمیم کے چکلے پر گیا تھا اور آنٹی شمیم نے اسے تھپڑ رسید کردیا تھا۔

ہمارے خیال میں جامعہ حفصہ کی انتظامیہ اور طالبات نے قانون ہاتھ میں لے کر غلط کیا۔ بہتر یہی تھا کہ وہ لوگ کورٹ میں جاتے اور آنٹی شمیم کیخلاف قانونی چارہ جوئی کرتے۔ اس ایکشن کےبعد جامعہ حفصہ نےجہاں لوگوں کی ہمدردیاں بھی حاصل کی ہیں وہیں میڈیا جو کہ مغربی روایات کو آگے بڑھانے کی کوشش کررہا ہے کو اپنے خلاف کرلیا ہے۔ ہرطرف ٹی وی اور اخبارات میں جامعہ حفصہ کے لوگوں کو مقامی طالبان کہ کر پکارا جارہا ہے اور ان کے اس غیرقانونی عمل کو طالبنائزیشن کا نام دیا جارہا ہے۔ اسطرح ہمارے خیال میں جامعہ حفصہ اپنے دین کا نام روشن کرنے کی بجائے اسے بدنام کرنے کا موجب بن رہا ہے۔ مانا کہ ہماری حکومت روشن خیالی اور اعتدال پسندی میں بہت سے غلط کاموں سے درگزر کررہی ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو چاہے اٹھ کر قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لے اور غنڈہ راج معاشرے پر مسلط کردے۔ 

پاکستان میں شروع سے امیر اور غریب کیلئے قانون کا اطلاق ایک جیسا نہیں رہا۔ ابھی کچھ عرصہ قبل ایک صوبائی وزیر کے بھتیجے نے لڑکیوں کو چھیڑنے سے منع کرنے پر ایک لڑکے کو قتل کردیا مگر قانون اس کا کچھ نہ بگاڑ سکا اور اسے ملک سے بھاگنے کا موقع فراہم کردیا گیا۔ اسی طرح مختاراں مائی سے لے کر ڈاکٹر شازیہ کے ریپ کے کیسز پر حکومت قانون کا مذاق بنتے تب تک دیکھتی رہی جب تک میڈیا نے ایکشن لینے پر مجبور نہیں کردیا۔

یہ بات یاد رکھنے کی ہے جب حکومت لا اینڈ آرڈر کا خیال نہیں رکھے گی تو پھر لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا شروع کردیں گے۔ سیدھی سی بات ہے جب غریب کو انصاف نہیں ملتا تو پھر وہ بندوق اٹھا لیتا ہے۔ جب وہ خود ظلم کا بدلہ لیتا ہے تو پھر اسے پکڑ لیا جاتا ہے۔

اگر اس طرح کے واقعات سے حکومت مستقبل میں بچنا چاہتی ہے تو پھر اسے بروقت ایکشن لینے ہوں گے۔ مظلوموں کی داد رسی کرنی ہو گی اور لوگوں کی شکایات کو بروقت سننا ہوگا۔ جس طرح دو دن قبل جنرل صدر مشرف نے ایک جلسے کے دوران ایک مظلوم عورت کی فریاد سنی اسی طرح انہیں ان لوگوں کی بھی فریاد سننی ہوگی جن کی ان تک رسائی نہیں ہے۔ حیرانی اس بات پر ہے کہ فوجی حکومت کے دور میں لا اینڈ آرڈر کی اگر یہ حالت ہے تو پھر ایسی فوجی حکومت سے تو سول حکومت بہتر ہے۔ ہماری جنرل صدر مشرف سے یہی درخواست ہے کہ خدارا دوسروں کے مسائل سلجھانے کی بجائے پہلے گھر کے مسائل پر توجہ دیجیے اور بیرونی دوروں پر خرچ ہونے والی عوامی دولت کو عوام کو انصاف دلانے پر خرچ کیجیے۔ اگر حکومت نے غریبوں کو انصاف ان کی دہلیز پر پہنچانا شروع کردیا تو پھر نہ پاکستان میں طالبنائزیشن ہوسکے گی اور نہ لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لیں گے۔