ایک عرصے کے بعد کل رات ہم نے بینظیر صاحبہ کا ڈاکٹر شاہد کیساتھ انٹرویو جیو ٹي وی پر دیکھا اور افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ بینظیر صاحبہ کی شخصیت نے ہم پر کوئی اچھا تاثر نہیں چھوڑا۔ کہتے ہیں جب تک آپ چپ رہتے ہیں آپ کا بھرم قائم رہتا ہے اور جب آپ بول پڑتے ہیں تو آپ اپنی قیمت خود بتا دیتے ہیں۔ یہی کچھ بینظیر صاحبہ کا انٹرویو سن کر ہم نے بھی بینظیر صاحبہ کے بارے میں محسوس کیا۔

بھٹو کی تصویر کو اسطرح سجا کر کہ وہ انٹرویو کے دوران نظر آتی رہے بینظیر صاحبہ نے یہی تاثر دینے کی کوشش کی کہ انہیں بھٹو کے مرنے کے اٹھائیس سال بعد بھی ان کی ضرورت ہے اور وہ بھٹو کے بغیر اب بھی کچھ نہیں۔ یہ ویسے ہی ہے جیسے گدی نشین اپنے بزرگوں کی زندگی کے کارناموں کو بعد میں کیش کراتے ہیں اور ان کی قبر سے اپنی روزی کا حاصل کرتے ہیں مگر اس طرح ان کی اپنی شخصیت اپنے بزرگوں کی بھاری بھرکم شخصیت کے نیچے دب کر رہ جاتی ہے۔ یہی حال بینظیر صاحبہ کا ہے کہ وہ اپنے باپ کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں لگیں اور یہ کمزوری ایک اچھے لیڈر میں نہیں ہونی چاہیے۔

اس انٹرویو میں بینظیر صاحبہ میں ایک بہت بڑی تبدیلی دیکھنے کو ملی۔ اس دفعہ بینظیر صاحبہ کے ہاتھ میں تسبیح نہیں تھی۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ دوپٹہ ابھی تک سر پر موجود ہے جو بار بار سر سے سرک کر کہ رہا تھا کہ اسے بھی اب سر پررکھنے کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ ہمارے آقا اب روشن خیال اور اعتدال پسند حکمران چاہتے ہیں۔

اگر آپ پورے انٹرویو کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ پچھلےسات سال میں بینظیر صاحبہ اپنی قومی زبان اردو تک پر عبور حاصل نہیں کرسکیں۔ ان کے مقابلے میں بھارتی کانگریس پارٹی کی صدر سونیا گاندھی جو اٹالین ہیں کا ہندی زبان پر عبور قابل رشک ہے۔ اچھا ہوتا اگر بینظیر صاحبہ اس جلاوطنی کے دوران کوئی اردو کا ٹیوٹر رکھ لیتیں اور ان فرصت کے دنوں میں کم از کم اردو ہی پوری طرح سیکھ لیتیں۔ اردو کو شاید بینظیر صاحبہ نے شاید اسلیے اہمیت نہ دی ہو کہ وہ عوام پر اپنے آقاؤں کو ترجیح دیتی ہوں گی جن کی زبان انہیں فر فر آتی ہے اور وہ اب اپنے باپ کے خیالات کے الٹ سمجھنے لگی ہیں کہ طاقت کا سرچشمہ عوام نہیں بلکہ ان کے آقا ہیں۔

بینظیر صاحبہ اس انٹرویو ميں ایک بھولی بھالی اور سیدھی سادھی خاتون نظر آرہی تھیں۔ بھولی اسلیے کہ انہیں بات گول کرنے کا فن بھی نہیں آتا تھا۔ وہ ڈاکٹر شاہد مسعود کے سوالات کے جوابات روانی سے نہیں دے رہیں تھیں اور کبھی کبھی تو ان کے چہرے کے تاثرات بتاتے تھے کہ وہ کچھ کہنا چاہتی ہیں مگر کسی وجہ سے نہیں کہ پارہیں۔ ایک دفعہ تو سادگی میں انہوں نے وہی سوال ڈاکٹر صاحب پر داغ دیا اور ڈاکٹر صاحب کو مجبوراً کہنا پڑا کہ وہ انٹرویو لے رہے ہیں دے نہیں رہے۔

بینظیر صاحبہ نے وردی اور جنرل صدر مشرف کےساتھ رابطوں کے بارے میں سوالات کے جوابات بھی ٹھیک طرح سے نہ دے کر یہ ثابت کردیا کہ وہ سیدھی سادھی خاتون ہیں جنہوں نے سیاست کے فریب ابھی تک نہیں سیکھے۔ وہ نہ تو جنرل صدر مشرف صاحب کی حمایت میں بول سکیں اور نہ ہی کھل کر ان کی مخالفت کرسکیں۔  بقول بینظیر صاحبہ کے پی پی پی نے کبھی بھی ڈکٹیٹروں کی حمایت نہیں کی مگر اس دفعہ لگتا ہے کہ بینظیر صاحبہ اقتدار کے لالچ میں پی پی پی کی اس وراثت کو بھی تباہ کردیں گی۔

جسطرح ایم کیو ایم کے الطاف حسین انٹرویو دیتے ہوئے بھی لگتا ہے مجمعے کے سامنے تقریر کررہے ہیں اس طرح بینظیر صاحبہ بھی انٹرویو دیتے ہوئے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ ایک سیاسی پلیٹ فارم پر سیاست کی نہیں بلکہ گھرمیں بیٹھ کر اپنے گھریلو مسائل پر گفتگو کررہی ہیں۔ انہوں نے اس انٹرویو میں کوئی ایسا تاثر نہیں چھوڑا کہ جس سے پتہ چلے کہ وہ ملک کیلیے کچھ کرگزرنے کیلیے بیتاب بیٹھی ہیں۔ پچھلے سات سال کی سیاسی سست روی نے بینظیر پر بھی اثر چھوڑا ہے اور وہ بھی جوش اور ولولے سے عاری نظر آئیں۔ ان کی گفتگو سے یہی لگ رہا تھا کہ پاکستان کے موجودہ حالات سنگین ہیں مگر اتنے نہیں کہ ان کیلیے وہ میدان میں اتریں۔ وہ بھی اب دوسرے لیڈروں کی طرح عوام کے زور پر نہیں بلکہ اپنے آقاؤں کے زور پر حکومت حاصل کرنے کی خواہشمند نظر آئیں۔ یہی سیاستدانوں کی خرابی جنرل صدر مشرف کے آرام سے حکومت کرنے کی وجہ بنی ہوئی ہے۔

بینظیر صاحبہ کو ہم یہی صائب مشورہ دیں گے کہ اگر انہوں نے ملک کی خدمت کرنی ہے تو پھر اس کیلیے پہلے اپنے آپ کو تیار کریں۔ اپنے عوام کی زبان پر عبور حاصل کریں۔ ماضی کی باتوں کو نہ بھولیں، اپنے گھریلو حالات کو ٹھیک رکھیں، زرداری صاحب کو منظر سے ہٹانے کی بجائے اپنے ساتھ ملائیں تاکہ وہ ان کا سہارا بن سکیں، آمریت کے بارے میں دو ٹوک رائے رکھیں بلکہ کبھی آمریت کیساتھ گٹھ جوڑ کے بارے میں سوچیں ہی نہیں، عوام سے رابطہ بڑھائیں، عوام کے مسائل کو حل کرنے کیلیے میدان میں آئیں اور اپنے باپ بھٹو کی طرح عوام کیلیے ایسا پروگرام بنائیں ،چاہے وہ صرف نعروں کی حد تک ہی ہو،جس کی وجہ سے عوام پھر سے پی پی پی کو اپنے دکھوں کا مداوا سمجھنے لگیں۔

ابھی تو یہی لگ رہا ہے کہ بینظیر صاحبہ بھی دوسرے سیاستدانوں کی طرح گھر بیٹھی تب تک آرام کرتی رہیں گی جب تک انہیں کہیں سے گرین سگنل نہیں مل جاتا یا پھر عوام مجبور ہوکر خود بخود سڑکوں پر نہیں نکل آتے۔  تب بینظیر اس عوامی غضب کا فائدہ اٹھا کر شہیدوں میں اپنا نام لکھوا لیں گی۔ لیکن بینظیر صاحبہ کو یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اب عوام بدل چکے ہیں اور یہ وہ عوام نہیں رہے جو بھٹو کی ایک کال پر لاکھوں کی تعداد میں گھروں سے نکل آتے تھے اب انہیں سڑکوں پر لانے کیلیے خود عملی طور پر کچھ کرکے دکھانا ہوگا۔ جب تک بینظیر صاحبہ خود عملی طور پر عوام کی قیادت نہیں کریں گی عوام بھی بنی اسرائیل کی طرح باہر بیٹھے یہی آس لگائے رکھیں گے کہ خدا خود ہی ان کے ملکی حالات کو ٹھیک کردے گا۔ سیاستدانوں اور عوام نے اگر اپنی سست روش نہ بدلی توبھول جائیں کہ وہ فوجی ڈکٹیٹرشپ سے کبھی جان چھڑا پائیں گے۔