خبروں اور حالات و واقعات سے تو یہ لگتا ہے کہ صحافی سلیم شہزاد خفیہ ایجنسیوں کی متشددانہ تفتیش کے دوران ہلاک ہوئے اور پھر بعد میں قتل چھپانے کیلیے ان کی نعش نہر میں بہا دی گئی۔ بی بی سی کی خبروں کیمطابق تو ان کے ساتھیوں کی باتوں سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ نیوی پر ہونے والے دہشت گردی کے حملے پر ان کی چھپنے والی رپورٹ ان کے اغوا اور پھر قتل کا سبب بنی۔ ان کے اغوا سے ایک دن قبل انہوں نے کہا تھا کہ اگر رپورٹ کے جواب میں خاموشی ہو تو پھر اٹھا لیا جاتا ہے۔ ان کے دوستوں کے مطابق ان کے فون سے آنے والی کال میں بھی کہا گیا تھا کہ سلیم صاحب خیریت سے ہیں اور چند روز میں گھر پہنچ جائیں گے۔

اگر یہ کار چھیننے کی واردات ہوتی تو پھر کار اس طرح سڑک کے کنارے سے نہ ملتی۔ اگر ان کا قتل ذاتی دشمنی کی وجہ ہوتا تو پھر وہ اس طرح کے تشدد کا نشانہ نہ بنتے بلکہ گولی یا تیز دھار آلے سے قتل کر دیے جاتے۔ ان کے جسم پر چوٹوں کے نشانات گواہی دیتے ہیں کہ ان پر تفتیش کے دوران تشدد کیا گیا اور وہ اس تشدد کو برداشت نہ کر سکے۔

اگر تو صحافی سلیم شہزاد کے قتل میں کوئی گرفتاری نہ ہوئی اور اس کیس کا نہ سپریم کورٹ نے سوموٹو ایکشن لیا اور نہ آزادنہ انکوائری ہوئی تو پھر یہ شبہ پکا ہو جائے گا کہ سلیم شہزاد خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ خدا ان کے گناہ معاف کرے، انہیں جنت میں جگہ دے اور ان کے قاتلوں کو اسی انجام سے دوچار کرے۔