موجودہ حکومت روشن خيالي کے ساتھ ساتھ جتنا انگريزي زبان پر زور دے رہي ہے پہلے کسي حکومت نے اتنا زور نہيں ديا۔ اب پہلي جماعت سے ہي انگريزي کا مضمون لازمي قرار دے ديا گيا ہے۔ حکومت کي ساري سرکاري کاروائي اکثر انگريزي ميں ہو رہي ہے سواۓ شيخ رشيد کي پريس کانفرنسوں کے۔ ہر طرف وزير انگريزي لباسوں ميں نظر آتے ہيں سواۓ ان تقريبوں کے جن ميں لوگوں کوبيوقف بنانا ہوتا ہے۔
سوال يہ ہے کہ کيا قوموم کي ترقي کيلۓ اب انگريزي زبان کو ذريعہ تعليم بنانا ضروري ہے اور کيا اب انگريزي زبان ہي ترقي کا معيار قرار پاۓ گي؟
اس سے پہلے دنيا کي تاريخ پر نظر دوڑائي جاۓ تو پتہ چلتا ہے کہ ہر قوم نے جب بھي ترقي کي تو اپني زبان ميں کي۔ مسلمانوں کا سارا عروج کا زمانہ اگريزي سے نابلد رہا۔ فرانس، جرمني، جاپان اور چين کي ساري ترقي ان کي اپني زبان ميں ہوئي ہے۔ اب بھي جو چيني امريکہ پڑھنے کيلۓ آرہے ہيں وہ انگريزي سے بلکل پيدل ہوتے ہيں مگر ہر مضمون ميں ان کے گريڈ اے پلس ہوتے ہيں۔ کہنے کا مطلب يہي ہے کہ جتني سمجھ آدمي کو اس کي مادري زبان ميں آسکتي ہے اتني بيروني زبان ميں نہيں۔ ہاں اگر آپ نے تجارت انگريزي زبان والے ملک کے ساتھ کرني ہے تو پھر انگريزي کي سدھ بدھ ہونا ضروري ہے۔
يا پھر جب آپ کو مشن ديا گيا ہو کہ آپ نے سارے معاشرے کو گورا يا امريکي معاشرہ بنانا ہے تو پھر آپ بچوں کو اس مصيبت ميں ڈال کر اپنا مشن پورا کر سکتے ہيں۔ اس طرح جب انگريزي ہر ايک کو پڑھني آۓ گي تو وہ انگلش ادب پڑھے گا اور انگلش ٹي وی پروگرام اور فلميں ديکھے گا اور معاشرے کو مغرب ذدہ بنانا آسان ہو جاۓ گا۔ اس کا ايک يہ بھي امريکي غلاموں کو فائدہ ہو گا کہ ان کي قوم صرف امريکي پروپيگنڈے سے متاثر ہو گي اور کوئي دوسرا کلچر اس پر اثر انداز نہيں ہو سکے گا۔
اصل بات يہ ہے کہ ہم پہلے بھي گوروں کے غلام تھے اور اب گھي گوروں کے غلام ہيں اور ہم انہي کے غلام رہيں گے جب تک قوم جاگ نہيں جاۓ گي۔ اب قوم کيسے جاگے گي يہ عصرِحاضر کے دانشوروں کا کام ہے کہ اس کي کوئي تجويز سوچيں ۔ ہمارے خيال ميں تبديلي تب ہي آۓ گي جب يا تو قوم غدّاروں کو مسترد کردے گي يا کوئي نيشنلسٹ ليڈر کے ہاتھ ميں قوم کي باگ دوڑ آۓ گي۔