آزاد کشمیر کے انتخابات میں نواز شرہف نے اپنی پرانی حلیف پارٹی مسلم کانفرنس سے اتحاد نہ کر کے جہاں مسلم کانفرنس کو نقصان پہنچایا وہاں پیپلز پارٹی کو فائدہ بھی پہنچایا۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے آزاد کشمیر کے انتخابات میں سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کر لیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مسلم لیگ ن اور مسلم کانفرنس آپس میں اتحاد کر کے پیپلز پارٹی کا مقابلہ کرتے اور بعد میں مشترکہ حکومت بنا لیتے۔ کیونکہ پیپلز پارٹی کے ووٹ بنک کا توڑ صرف اینٹی پی پی پی ووٹوں کا اتحاد ہی ہو سکتا ہے۔ ہم نواز شریف کی اس حکمت عملی کو ایک طفل مکتب سیاستدان کی بچگانہ سوچ کا شاخسانہ ہی کہیں گے۔ وژن رکھنے والے سیاستدان تو ہر چال دیکھ کر چلتے ہیں مگر ناتجربہ کار سیاستدان دو چار جلسے کر کے سمجھتے ہیں انہوں نے میدان مار لیا۔

پیپلز پارٹی کی جیت سے ووٹرز کی سوچ پر حیران ہی ہوا جا سکتا ہے جنہوں نے پیپلز پارٹی کے ناکام دور حکومت کے باوجود اسے آزاد کشمیر سونپ دیا۔ مسلم لیگ ن کو آزاد کشمیر کے انتخابات کو اپنے لیے انتباہ سمجھنا چاہیے اور پاکستان میں آئندہ ہونے والے انتخابات کی تیاری میں اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے۔ اگر مسلم لیگ ن اب بھی پاکستان میں اتحاد بنا کر اگلے انتخابات میں میدان میں نہ اتری تو پھر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ق کا اتحاد میدان مار لے گا۔

ایم کیو ایم کے الطاف حسین نے آزاد کشمیر کے انتخابات کے بائیکاٹ کے بعد پیپلز پارٹی پر خوب غصہ نکالا ہے۔ اس دفعہ تو ایسے لگ رہا تھا کہ وہ ابھی حکومت سے الگ ہوئے کہ ہوئے۔ کیونکہ ان کا لب و لہجہ انتہائی غضب ناک تھا۔ مگر پتہ نہیں کیوں انہوں نے صرف تقریر تک ہی اکتفا کیا۔