ہمارے ایک جاننے والے نہایت شریف اور سیدھے سادھے آدمی ہیں جن کو ہم ساجد کہ کر پکاریں گے۔ وہ ہمارے محلے میں رہتے تھے۔ دوسال پہلے اچانک ان کی بیوی کو ساڑھے تین سو کلومیٹر دور ایک شہر میں نوکری مل گئ اور وہ اپنا نیا خریدا ہوا گھر کسی کو کرائے پر دے کر چلے گئے۔ وہاں پر انہوں نے اپنے پروفیشن یعنی انجنئرنگ میں نوکری ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی مگر چھ ماہ کی ناکام کوشش کے بعد انہوں نے ٹیکسی چلانی شروع کردی۔ ابھی ٹيکسی چلاتے ایک سال ہوا تھا کہ انہیں اپنے شہر سے سینکڑوں میل دور نوکری مل گئ اور وہ اکیلے ہی اس شہر میں منتقل ہوگئے اور نوکری شروع کردی۔

اس سے پہلے جب وہ ہمارے محلے میں رہتے تھے ان کی بیوی ایک کالج سے جنرل اکاونٹنگ میں ڈپلومہ کررہی تھی اور ندیم صاحب گاڑیاں بنانے والی بڑي کمپنی میں انجنیئر تھے۔ ان کا گزارہ اچھا ہورہا تھا۔ وہ اپنی بیوی کا سارا کالج کا خرچ بھی دے رہے تھے اور گھر کو بھی چلا رہے تھے۔ ساجد صاحب کی دوبیٹیاں ہیں جن کی عمریں اس وقت نو اور دس سال کی ہوں گی۔

ساجد صاحب ایک ایسی شخصیت ہیں جو اپنی بیوی کی مرضی کے خلاف ایک قدم بھی نہیں چلتے۔ ہر چھوٹی سے چھوٹی بات پر وہ اپنی بیوی سے مشورہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ ایک دفعہ ہم نے انکم ٹیکس بنانے میں ان کی مدد کی اور جب بیوی سے دستخط کرانے کی باری آئی تو اس نے دستخط کرنے سے انکار کردیا۔ اس نے چونکہ ساجد صاحب کا پرکھا ہواقانون ماننے سے انکار کردیا اور کہا کہ وہ یہ غلط کام نہیں کرے گی حالانکہ وہ کام غلط نہیں تھا۔ 

آج اچانک ساجد صاحب کا فون آیا تو انہوں نے ہمیں یہ خبر سنا کر چونکا دیا کہ ان کی بیوی نے کورٹ میں علیحدگی کی درخواست  داخل کردی ہے اور وہ نوکری چھوڑ کر واپس اپنے شہر میں منتقل ہورہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ وہ وہاں رہ کر دوبارہ ٹیکسی چلائیں گے تاکہ بچوں کے قریب رہ سکیں اور کچہری کی تاریخیں بھگت سکیں۔

 ہم نے ان سے پوچھاکہ کیا دوبارہ صلح نہیں ہوسکتی۔ وہ کہنے لگے میں تو کرسکتا ہوں مگر میری بیوی نہیں کرنا چاہتی۔ اب دو سال کی نوکری کے بعد وہ سرٹیفایڈ جنرل اکاؤنٹنٹ بن چکی ہے اور اسے میری ضرورت نہیں رہی۔ اس کی ساری فیملی اسی شہر ميں رہتی ہے اور ہوسکتا ہے اسے کوئی اور اچھا آدمی مل گیا ہو۔ کہنے لگے میں سب کو نصیحت کروں گا کہ وہ اپنی بیوی کو پڑھا لکھا کر نوکری نہ کرنے دیں۔ وگرنہ جس طرح ان کی قسمت پھوٹی ہے اوروں کی بھی پھوٹے گی۔ ہم نے انہیں کہا کہ ضروری نہیں سارے مرد اور عورتیں ایک جیسی ہوں۔ اگر آپ اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں تو شاید کچھ کوتاہیاں آپ میں بھی نکل آئیں۔ مگر ہم لوگ کبھی بھی اپنا قصور نہیں مانتےاور سارا الزام مخالف پر دھر دیتے ہیں

 چونکہ ہم نے یک طرفہ کہانی سنی ہے اسلیے ہمیں ان کی بیوی کی شکایات کے بارے میں علم نہیں۔ ہاں ایک اور صاحب جن کے ساجد صاحب کیساتھ گھریلو تعلقات تھے وہ بتانے لگے کہ جب وہ ہمارے محلے میں رہتے تھے تو بیگم ساجد ان کی بیوی کیساتھ ندیم صاحب کے بارے میں وہ وہ خرافات بکا کرتی تھی کہ جن کو سنتے ہوئے عورت شرم سے پانی پانی ہوجائے۔ کہا کرتی تھی کہ ساجد کی گاڑی سے کئ بار اسے کنڈوم ملے ہیں اور اس کا شک ہے کہ اس کے بازاری عورتوں کے ساتھ تعلقات ہیں۔ وہ بھی کہتی تھی کہ وہ اس شخص کی جسمانی خواہشات کو پوری نہیں کرسکتی کیونکہ ہر بار وہ طرح طرح کی خواہشات کا اظہار کرتا رہتا ہے۔ ساجد صاحب دیکھنے میں تو ایسے نہیں لگتے، وہ اندر سے کیسے ہیں یہ وہی جانتے ہیں یا پھر ان کی بیگم۔  بقول محلے دار کے بیگم ندیم نہایت جالاک اور تیز عورت تھی اور آخرکار اس بے جوڑ شادی کا یہی انجام ہونا تھا۔

ساجد صاحب بتا رہے تھے کہ بہت عرصہ پہلے اپنی بیگم کو آزاد کرنے لگے تھے مگر تب ان کے والدین نے انہیں روک دیا تھا اور کہا کہ جب بچے ہوں گے تو بیگم ٹھیک ہوجائے گی۔ ان کو یہی افسوس تھا کہ کئ سال سے جو رقم اپنی بیگم کی پڑھائی لکھائی پر خرچ کررہے تھے وہ ضائع ہوگئ۔ بیگم نے ان کو استعمال کیا، جب کمانے کے قابل ہوگئ تو ان کو دھتکار دیا۔

اب ایک سال علیحدگی رہے گی پھر طلاق کا مقدمہ چلے گا اور اس سارے عرصے میں ان کا گھر وکیلوں کی فیسوں کی نظر ہوجائے گا۔ ہم نے تو ساجد صاحب کو یہی مشورہ دیا کہ آپ دونوں کی بہتری اسی ميں ہے کہ کورٹ کچہری کے چکروں میں نہ پڑیں اور اگر صلح کی کوئی تدبیر نہ بنے تو آپس میں مک مکا کرلیں۔

ہمیں تو ان بچیوں پر ترس آتا ہے جو ماں باپ کی اس لڑائی میں کہیں کی نہ رہیں گی۔ بچیاں ماں کے پاس رہیں گی اور باپ ان کو ہفتے میں ایک دوبار دیکھنے آجایا کرے گا۔  وہ اس تکلیف دہ صورتحال کا پتہ نہیں کیسے مقابلہ کریں گی۔