جب پاکستان بنا تو اردو بولنے والے لوگوں نے ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی اور مہاجر کہلائے۔ کیونکہ اردو سپیکنگ لوگ پڑھے لکھے تھے اسلیے جلد ہی وہ حکومت کے اہم عہدوں پر فائز ہو گئے۔ بیوروکریسی ہو یا فوج یا حکومت اردوسپیکنگ لوگوں کی اکثریت ہی مسند اقتدار پر رہی۔ جب اسلام آباد دارالحکومت بنا تو یہ اردو سپیکنگ لوگ ہی تھے جو اسلام آباد منتقل ہوئے اور انہوں نے عنان اقتدار کے مزے لوٹے۔ پنجاب کے تقریبا تمام بڑے شہروں میں مہاجر آباد ہوئے اور ان کیساتھ کسی نے تعصب روا نہ رکھا بلکہ انہیں ہنس کر اپنے اندر ضم کر لیا۔ یہ اردو سپیکنگ لوگوں کا احسان ہے کہ پاکستان نوآموز ہونے کے باوجود جلد ہی اپنے قدموں پر کھڑا ہو گیا۔ اتنی ساری کامیابیوں کے ساتھ اگر اردو سپیکنگ کہیں کہ ان کیساتھ تعصب روا رکھا گیا تو دل ماننے کو تیار نہیں ہوتا۔

کراچی جنرل ضیاع کے مارشل اور اس کے مہاجر قومی موومنٹ بنانے تک امن کا گہوارہ رہا۔ جونہی جنرل ضیاع نے جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کا کراچی میں  زور توڑنے کیلیے مہاجر قومی موومنٹ بنانے کی راہ ہموار کی کراچی میں امن و امان کی صورتحال خراب ہونا شروع ہو گئی۔ وہ دن اور آج کا دن کراچی کو امن نصیب نہیں ہوا۔ اچھا ہوتا ناں مہارجر قومی موومنٹ بنتی اور ناں کراچی کا نسلی بنیادوں پر بٹوارہ ہوتا۔ جب ہم نے 1978 میں کراچی کا چکر لگایا مہاجر، پٹھان، بلوچی پنجابی سب مل کر رہ رہے تھے۔ ہم نے غریب بستی ناظم آباد میں چند روز گزارے، کلفٹن میں بھی رہے اور اپنی آںکھوں سے مہاجروں، پٹھانوں اور پنجابیوں کے گھر ایک دوسرے کیساتھ جڑے دیکھے۔

اب یہی اردو سپیکنگ، پٹھان اور پنجابی ایک دوسرے کی جان کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ اردو سپیکنگ کو خوف ہے کہ پٹھانوں کی تعداد کراچی میں بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے ان کا ووٹ بنک کم ہو رہا ہے۔ انہیں پٹھانوں سے یہ بھی خوف ہے کہ وہ سخت جان ہونے کی وجہ سے محنت مزدوری سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ اردو سپکنگ اب بھی پڑھے لکھے ہیں اور تمام اہم عہدوں پر فائز ہیں۔ پھر بھی وہ ایک مزدور طبقے سے اتنے خوف زدہ کیوں ہیں اس کی سمجھ نہیں آ رہی۔

کراچی پھر سے امن کا گہوارہ بن سکتا ہے اگر الطاف حسین، شاہی سید اور صدر زرداری اپنے اپنے غنڈوں کو نکیل دے دیں۔ اگر الطاف حسین کے ایک دو تین کہنے پر تمام مجمع خاموش ہو سکتا ہے تو پھر ایم کیو ایم کے کارکن ایک دو تین کہنے پر اسلحہ بھی نیچے رکھ سکتے ہیں۔ اے این پی جو خود کو تشدد سے پاک تحریک سمجھتی ہے وہ آسانی سے اپنے کارکنوں سے اسلحہ چھین سکتی ہے۔ پی پی پی کے کارکن جو بھٹو کے نام پر جان تک دے سکتے ہیں وہ بھٹو کے نام پر اسلحہ بھی حکومت کے حوالے کر سکتے ہیں۔

لیکن جب ایم کیو ایم کو پٹھانوں کی تعداد بڑھنے کی وجہ سے اپنے ووٹ بنک کی فکر پڑی ہو اور وہ اسلحے کے زور پر پٹھانوں کو کراچی سے بیدخل کرنا چاہتی ہو تو پھر کراچی میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ کراچی میں تبھی امن قائم ہو گا جب تمام سیاسی جماعتیں خودغرضی کے خول سے نکل کر سوچنا شروع کریں گی۔