کل جماعتی کانفرنس پہلے کی طرح ایک ڈرامے کے سوا کچھ نہیں ہوگی۔ حکومت اپنے پوائنٹس سکور کرے گی اور حزب اختلاف اپنی کامیابی کے دعوے کرے گی۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ کل جماعتی کانفرنس کا پہلے ایجنڈا جاری کیا جاتا اور پھر سروے سے عوام کی رائے لی جاتی۔ عوام کی رائے کو بنیاد بنا کر کل جماعتی کانفرنس آپس میں مشورہ کرتی اور اسی راہ پر چلتی جس کی حمایت عوام نے کی ہوتی۔

اس کانفرنس کا ایک دن شو آف ہو گا، پھر چند روز میڈیا پر ٹاک شوز ہوں گے اور اس کے بعد اندر خانے وہی ڈیل کر لی جائے گی جس کا پہلے سے فوج اور سول حکومت نے پلان بنا رکھا ہے۔ مگر کہا یہ جائے گا کہ حکومت نے تمام سیاسی جماعتوں کے مشورے سے یہ حکمت عملی اپنائی ہے۔ دوسری طرف حزب اختلاف اور حکومت سے باہر سیاستدان یہ کہیں گے کہ ان کی بات سنی ہی نہیں گئی اور انہوں نے تو جو مشورہ دیا تھا اس پر عمل ہی نہیں ہوا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کل جماعتی کانفرنس کے بعد حکومت فوج کو وزیرستان میں کاروائی کا حکم دے دے اور اس کا ملبہ ان تمام سیاستدانوں پر ڈال کر بری الزمہ ہو جائے جنہوں نے اس کانفرنس میں شرکت کی ہو گی۔

آجکل نہ تو حکمرانوں کی اپنی مرضی چلتی ہے اور نہ ہی فوج کی بلکہ یہ دونوں ادارے کسی پوشیدہ طاقت کے پاس رہن پڑے ہوئے ہیں اور یہ وہی کرتے ہیں جو انہیں کرنے کو کہا جاتا ہے۔ کل جماعتی کانفرنس تو بس ٹوپی ڈرامہ ہو گی۔