ریلوں کا سفر ہمیں شروع سے ہی اچھا لگتا رہا ہے مگر ان کے طے شدہ اوقات کی وجہ سے ہم نے بسوں پر سفر کو ترجیح دی جو ہر وقت اڈے پر موجود ہوتی تھیں۔ ستر اسی کی دہائی کے ریلوے کی اپنی ہی شان تھی۔ ریلوے سٹیشن صاف ستھرے ہوتے تھے۔ ٹرین وقت پر آتی تھی اور ڈبے سیٹوں سمیت بہت صاف ستھرے ہوتے تھے۔ پشاور سے کراچی جانے والی ٹرینوں کے کچھ ڈبوں کی کھڑکیاں اور دروازے بند ہوتے تھے۔ معلوم کرنے پر پتہ چلتا تھا کہ پٹھانوں نے پردے کی خاطر کھڑکیاں بند کی ہوئی ہیں اور دروازے اسلیے بند ہیں کہ کوئی اور داخلے کی جرات نہ کرے۔ ویسے بھی عام پنجابی اس وقت پٹھانوں سے بہت ڈرتے تھے کیونکہ ہر ایک کے پاس اسلحہ ہوتا تھا۔

ہم نے اکثر تھرڈ کلاس میں ہی سفر کیا ہے۔ ہم نے ایک دفعہ کراچی کا سفر بھی ریلوے سے کیا۔ برتھ کیساتھ سیٹ بک کرائی مگر راستے میں ہی برتھ پر قبضہ ہو گیا۔ چلتی ٹرین سے باہر دیکھنے پر زمین گھومنے کا منظر ہمیں اس وقت بہت اچھا لگا کرتا تھا۔ پھر رات کے وقت جب لوگ جلتے سگریٹ کے ٹوٹے باہر پھینکتے تھے تو ایسے لگتا جیسے جگنو اڑ رہے ہیں۔ ہماری نئی نئی شادی ہوئی تھی اور ہم نے بیگم کیساتھ فرسٹ کلاس میں پہلی بار سفر کیا۔ بیرہ صبح کا ناشتہ بناں پوچھے ہی ہمارے سامنے رکھ گیا۔ ہم نے بیگم سے کہا خوب کھانا مفت کا مال ہے۔ ہم نے سمجھا کہ شاید فرسٹ کلاس ٹکٹ کیساتھ مفت ناشتہ ملتا ہو گا۔ لیکن جب اپنا سٹیشن آیا تو بیرہ بل لے آیا جو اصل ٹکٹ سے بھی زیادہ تھا۔

ریلوے پر ہم نے لوگوں کو سو ڈیڑھ سو میل روزانہ سفر کرتے دیکھا ہے جو بڑے شہروں میں نوکری پر جایا کرتے تھے۔ ہم نے کراچی تک باراتیں ریلوے میں جاتی دیکھی ہیں۔ اس وقت اخبارات کی ترسیل ریلوے سے ہی ہوا کرتی تھی اور اخباروں اور رسالوں کا سٹور ریلوے سٹیشن پر ہی ہوا کرتا تھا۔ بچوں کے میگزین ریلوے سٹیشن کے سٹالوں پر سب سے پہلے ملا کرتے تھے۔ قلی سرخ وردیوں میں ریلوے سٹیشن پر گھومتے بہت اچھے لگا کرتے تھے۔ بعض اوقات عمررسیدہ قلی سے سامان اٹھانا مشکل ہو جایا کرتا تھا اور کئی بار تو بیچارے گر بھی جایا کرتا تھا۔

کرپشن اس وقت بھی ریلوے میں تھی۔ ٹکٹ چیکر اس وقت بھی رشوت لیکر بغیر ٹکٹ سفر کرنے والے کو چھوڑ دیا کرتے تھے۔ رشوت دے کر سیٹوں کی بکنگ اس وقت بھی ہوتی تھی۔ قلی ایک دوسرے سے ملکر سیٹوں کا کاروبار کرتے تھے۔ ایک قلی سیٹ پر قبضہ کر لیتا اور دوسرا گاہک سے رقم طے کرتا۔ جس کا رشتے دار ریلوے انجن کا ڈرائیور ہوتا، یا ٹکٹ کلیکٹر ہوتا اس کا سفر مفت میں ہوا کرتا تھا۔ اس وقت انجن ڈرائیوروں سمیت ریلوے کے زیادہ تر ملازمین اردو سپیکنگ ہوتے تھے۔

اب تو سنا ہے ریلوے تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ بہت ساری ٹرینیں بند ہو چکی ہیں۔ اب تو یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ ریلوے کے پاس ایک دو روز کا ایندھن بچا ہوا ہے۔ ریلوے ترقی پذیر ملک کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا آیا ہے۔ اس کی بنک کرپسی معاشی تنزلی میں مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔ ریلوے کی موجودہ حالت سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ موجودہ حکومت کے وزیر خزانہ کتنے نااہل ہیں اور موجودہ حکومت ملکی ترقی کے بارے میں کتنی فکرمند ہے۔