جیسا کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ یھ سال انتخابات کا سال ہے اور اس سے بڑھ کر جنرل صدر مشرف کے دوبارہ منتخب ہونے کا سال ہے۔ اسلیے ہمیں یہی امید ہے کہ کم از کم اس سال ہمیں چند عارضی خوشیاں نصیب ہوں گی۔  وزیراعظم جو وزیر خزانہ بھی ہیں کئی بار کہ چکے ہیں کہ یہ بجٹ عوامی بجٹ ہوگا۔ یقین کریں وہ پہلی دفعہ سچ بھول رہے ہیں حالانکہ اس سچ کے پیچھے ان کی حکومت کا مفاد پوشیدہ ہے۔ جنرل صدر مشرف بھی اس سال جہاں جہاں جلسے کررہے ہیں خوشیاں ہی خوشیاں بانٹ رہے ہیں۔ حالانکہ ابھی پچھلے ہفتے انہوں نے آج ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنے وردی اتارنے کی وعدہ خلافی کے جواب میں کہا کہ وہ اب مزید وعدے نہیں کیا کریں گے۔ مگر اس کے باوجود وہ جگہ جگہ وعدے کررہے ہیں ۔ کہیں وہ کہتے ہیں کہ بجلی کا بحران دور کرنے کا وعدہ کررہے ہیں، کہیں وہ بالاکوٹ کو دوبارہ آباد کرنے کا وعدہ کررہے ہیں، کہیں سپریم کورٹ کے فیصلے کو ماننے کا وعدہ کررہے ہیں اور کہیں وہ ہر قصبے اور گاؤں میں صاف پانی مہیا کرنے کا وعدہ کررہے ہیں۔

اس سال آپ مطمن ہوکربیٹھ جائیں اور اپنی تنخواہوں میں اضافے کی نوید سننے کیلیے تیار رہیں۔ اس بجٹ میں نہ صرف تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے گا بلکہ بعض اشیائے خوردونوش پر سبسڈی دینے کی بھی خوشخبری سنائی گئ ہے۔ ہمیں تو یہ بھی امید ہے کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے باوجود گورنمنٹ پٹرول کی قیمتیں بھی کم کردے گی۔

 اس بجٹ میں ذرعی ٹیکس ایک بار پھر بھول جائیں چونکہ حکومت نے وڈیروں اور جاگرداروں کے سر پر ہی اگلا الیکشن جیتنا ہے اور وہ اس وقت انہیں ناراض نہیں کرنا چاہے گی۔

 بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا۔

ہوسکتا ہے درآمدی مال پر کسٹم ڈیوٹی میں چھوٹ کا سلسلہ جاری رہے کیونکہ حکومت اپنے آقاؤں کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتی۔

 بجلی کی لوڈشیڈنگ الیکشن کے سال میں حکومت کیلیے درد سر بن چکی ہے اور وہ چاہے گی کہ اس سال کے بجٹ میں ڈیم بنانے یا پاور پلانٹ درآمد کرکے بجلی کی کمی کو دور کرنے کا اعلان بھی کرے۔

 ہماری حکومت خود تو تعلیم کو قومی ترقی کیلیے ضروری سمجھتی ہے مگر اس کے آقا نہیں چاہتے کہ وہ لوگوں کو تعلیم کی سہولتیں بہم پہنچا کر ان کے شعور کو بیدار کریں۔ اسلئے اس سال بھی بجٹ میں تعلیمی بجٹ میں اضافہ آٹے میں نم کے برابر ہوگا کیونکہ حکومت کو معلوم ہے کہ پاکستانی تعلیم کو الیکشن ایشو نہیں بنائیں گے۔

اس بجٹ میں سب سے زیادہ فراخ دلی لوکل حکومتوں اور ارکان اسمبلی کو نوازنے کیلیے ان کے حلقوں کیلیے بےتحاشہ رقوم مختص کی جائیں گی جن کا زیادہ تر حصہ ممبران کی جیبوں میں چلا جائے گا اور جو باقی بچے گا اسے عوام کو بیوقوف بنانےاور ان کے ووٹ حاصل کرنے کیلیے دکھاوے کے پروگراموں پر خرچ کیا جائے گا۔ محلوں کی گلیاں پکی ہوں گی، سیوریج کا نظام بہتر بنایا جائے گا اور سوئی گیس کے پائب بچھائے جائیں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ سارے اتنظامات عارضی ہوں گے اور ساری تعمیرات انتخابات کے بعد ریت کی دیوار کی طرح ڈھیر ہوجائیںگی۔

اس سال ذکوٰة کا مال خوب خرچ ہوگا اور اپنی پسند کے غریبوں کو پیسہ دے کے ان کے ووٹ خریدے جائیں گے۔ اب وقت بدل چکا ہے اور ذکوٰة کا مال امیر اسمبلی ممبران بھی ہڑپ کرتے ہوئے خدا کا خوف محسوس نہیں کرتے۔ اسی ذکوٰة کے مال سے جو غریبوں کے بنک اکاؤنٹوں سے زبردستی منہا کی جاتی ہے ارکان اسمبلی اپنے محل بنائیں گے جن کے صدر دروازے پر لکھا ہوگا حذا من فضل ربی۔

حکومت کی پچھلی کارکردگی کو اگر مد نظر رکھا جائے تو موجودہ بجٹ کے پیچھے حکومتی مفاد چھپا ہونے کی وجہ سے اس بجٹ کو ہم عارضی بجٹ کہیں گے۔ کیونکہ انتخابات کے فورا بعد ایک منی بجٹ آۓ گا اور جتنی رعائتيں اس بجٹ میں دی گئی ہوں گی وہ بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کرکے ملیا میٹ کردی جائیں گی۔ حکومت کو معلوم ہوگا کہ اگلے انتخابات جیتنے کے بعد اسے عوام کی مزید پانچ سال کیلیے ضرورت ختم ہوجائے گی اور اس پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں ہوگا۔ اب یہ عوام پر منحصر ہے کہ وہ حکومت کی اس چال میں کتنے پھنستے ہیں اور حکومت کی بدنیتی افشا ہونے کے بعد اس سے کس طرح نپٹتےہیں۔

ہماری حکومت چونکہ عوامی حکومت نہیں ہے اسلیے یہ عوامی خدمت کے جذبے سے عاری ہے۔ اس حکومت کو چونکہ اس کے آقاؤں کی سپورٹ ہے اور اس کے بہت سارے وزیر سفیر درآمد شدہ ہیں اسلیے یہ عوام کے مقابلے میں اپنے آقاؤں کی زیادہ طرفداری کررہی ہے اور کرتی رہے گی۔

ہمیں اس بات پر پورا یقین ہے کہ جس دن عوامی حکومت وجود میں آئی اس کے اقدامات سے پہلے روز ہی پتہ چل جائے گا کہ وہ ملک کیساتھ مخلص ہے کہ نہیں۔ پنجابی میں کہتے ہیں کہ” پتر کپتر پوتڑیاں توں ہی پہچانے جاندے نیں” یعنی جس طرح بچہ پیدا ہوتے ہی اس کی خاندانی روایات سے پتہ چل جاتا ہے کہ وہ بڑا ہوکر کیا کرے گا، اسی طرح ہر آدمی پہلی ملاقات سے ہی پہچانا جاسکتا ہے کہ وہ کس کردار کا ہے۔

ابھی تک تو حکومت نے یہی ثابت کیا ہے کہ وہ عوام کو اولیت نہیں دیتی اور جو اچھے کام بھی کررہی ہے ان کے پیچھے کوئی نہ کوئی مفاد چھپا ہوتا ہے۔ جس دن حکومت کی نیت ٹھیک ہوگئ ہمارے مسائل کم ہونا شروع ہوجائیں گے۔