ہماری کابینہ نے بھارت کو تجارت کیلیے پسندیدہ ترین ملک قرار دے دیا ہے اور اب اسمبلی سے اس کی منظوری لی جائے گی۔ ہمیں بھارت کیساتھ دوستی اور تجارت پر کوئی اعتراض نہیں ہے مگر اعتراض ہے تو اس بات پر کہ بناں کچھ فائدہ اٹھائے اس طرح کا فیصلہ کرنا قومی مفاد میں نہیں ہو گا۔ اگر ہم نے ایسا فیصہ کرنا ہی تھا تو کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے بھارت سے بھی رعائتیں حاصل کی جاتیں۔ مشرف بھی اپنے دور میں یہی فیصلہ کرنے جا رہے تھے مگر عوامی پریشر کی وجہ سے نہ کر سکے۔ اب ہماری عوامی حکومت نے وہ کچھ کر دیا ہے جو کوئی ڈکٹیٹر بھی نہ کر سکا۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بھارت اور پاکستان ملکر ایک دوسرے کو پسندیدہ ملک قرار دیتے اور دونوں کے درمیان تجارتی معاہدہ ہوتا۔ اس طرح جہاں مال بھارت سے درآمد ہوتا وہاں برآمد بھی ہوتا۔ پہلے چینی درآمدات نے ہماری صنعت کا بیڑۃ غرق کیا اور اب بھارتی مال سستا ہونے کی وجہ سے ہماری قومی صنعت کو ختم ہی کر دے گا۔ ہم ازل سے یہ رونا روتے آئے ہیں کہ قومی صنعت کو تحفظ دینے کیلیے درآمدات پر ڈیوٹیاں لگانی چاہئیں مگر رشوت خور اور مفاد پرست کہاں ایسی باتیں سنتے ہیں۔ اب بھی سو فیصد بھارتی لابی نے ہماری کسی بڑی حکومتی شخصیت کو مال لگایا ہو گا وگرنہ اور کچھ نہیں تو اس رعایت کے بدلے کم از کم ہمارے کرکٹرز کو آئی پی ایل میں شمولیت کی اجازت تو لی ہی جا سکتی تھی۔