موجودہ عوامی بے حسی کی ایک وجہ طلبا تنظیموں پر پابندی ہے۔ پاکستان کی تحریک آزادی میں طلبا کے کردار کو قائد اعظم نے سراہا۔ طلبا کے اس کردار کی سچائی بعد میں کئی مواقع پر ثابت ہو چکی ہے۔ بھٹو نے ایوب خان کے خلاف جو تحریک شروع کی اس میں طلبا نے اہم رول ادا کیا۔ جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم جیسی مظبوط تنظیمی جماعتوں کے پیچھےبھی طلبا کا کردار اہم رہا ہے۔ بلکہ الطاف بھائی نے بھی طالب علم کے طور پر سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔

مصر، مراکش، لیبیا اور شام میں نوجوانوں یعنی طلبا نے سوشل نیٹ ورک کے ذریعے ڈکٹیٹروں کے خلاف تحاریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ فلسطینیوں کی تحریک آزادی میں بھی نوجوانوں نے ہی جان ڈالی ہوئی ہے۔ آج اگر ہماری قوم میں بے حسی پائی جاتی ہے تو اس کی وجہ طلبا تنظِموں پر پابندی ہی ہے۔ اگر آج طلبا تنظیمیں ہوتیں تو موجودہ کرپٹ حکومت کب کی ختم ہو چکی ہوتی۔ جنرل ضیاع نے جب بھٹو کی حکومت گرائی تو سب سے زیادہ احتجاج طلبا نے ہی کیا اور یہی وجہ تھی کہ جنرل ضیاع نے طلبا تنظیموں پر پابندی لگا دی۔ اس کے بعد پیپلزپارٹی کی تحریک دم توڑ گئی۔ قوم کو بے حس بنانے کاا یہ حربہ اتنا کامیاب ہوا کہ بعد میں آنے والی تمام حکومتوں نے طلبا تنظیوں پر پابندی برقرار رکھی۔ پیپلز پارٹی نے کئی دفعہ طلبا تنظیمیں بحال کرنے کا وعدہ کیا مگر اپنی کرپشن کیخلاف تحریک کے اٹھنے کی وجہ سے  وہ یہ وعدہ پورا نہ کر سکی۔

مڈل کلاس طبقے کی نمائندگی کیلیے سب سے بڑا فورم طلبا تنظیمیں ہی ہیں اور ان کو بحال ہونا چاہیے تا کہ ہماری قوم میں سیاسی شعور بیدار ہو۔ عمران خان کی تحریک انصاف کی مقبولیت بھی طلبا اور نوجوانوں کی وجہ سے بڑھ رہی ہے۔ سب اس بات پر متفق ہیں کہ عمران خان کے لاہور کے جلسے کی کامیابی میں طلبا نے بہت بڑا کردار ادا کیا۔ آج میڈیا کی طاقت کیساتھ اگر طلبا کی طاقت بھی مل جائے تو ہمیں یقین ہے کہ قوم کو جوان، پرعظم اور مخلص قیادت میسر آ سکتی ہے۔

طلبا تنظیموں کے حق میں ہم پہلے بھی یہاں اور یہاں لکھ چکے ہیں۔