عظمی ایوب کیساتھ اجتماعی زیادتی کا کیس عدالت میں ایک سال سے چل رہا ہے۔ مجرم گرفتار ہیں اور میڈیا اس کیس کو خوب کوریج دے رہا ہے۔ ہمارا عدالتی نظام اس قدر سست ہے کہ مدعی نے اجتماعی زیادتی کی وجہ سے بچی کو جنم بھی دے دیا مگر اس کے کیس کا فیصلہ نہیں ہو سکا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عظمی ایوب کیساتھ زیادتی کے بعد ڈی این اے ٹیسٹ سے زیادتی کرنے والوں کی نشاندہی ہو جاتی مگر لگتا ہے ملزم طاقتور ہیں اور مدعی کمزور۔ مجرموں میں کچھ پولیس اور آرمی کے اہلکار شامل ہیں۔ اس لڑکی کا بھائی جو اس کا کیس لڑ رہا تھا اسے بھی بھری عدالت میں قتل کر دیا گیا۔ عظمی ایوب کی بچی کو پیدا ہوتے ہی اس کی مرضی کیخلاف اس سے الگ کر دیا گیا اور دوسرے دن اسے واپس کیا۔ اب وہ یہ بھی نہیں جانتی کہ جو بچی اسے واپس کی گئی ہے وہ اسی کی ہے یا بدل دی گئی ہے۔

اس جدید دور میں ڈی این ٹیسٹ سے بچی کے نہ صرف اصلی ہونے بلکہ بچی کے والد کا بھی پتہ چلایا جا سکتا ہے۔ اب اس طرح کے ثبوتوں کے باوجود کیس کو مہینوں لٹکائے رکھنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ اگر اسی طرح کا واقعہ کسی طاقتور شخصیت کیساتھ پیش آیا ہوتا تو وہ پہلے تو خود ہی بدلہ لے لیتے وگرنہ دہشت گردی کی عدالت لگتی اور ایک دو ماہ میں مجرموں کو سزا مل جاتی۔ امیر غریب کیساتھ قانون کا مختلف رویہ ہمارے معاشرے کے بگاڑ کی گواہی دیتا ہے۔