جب سے چیف جسٹس کا بحران شروع ہوا ہے حکومت کے تو ہوش اڑے ہوئے ہیں مگر جہاں عام آدمی کے معمولات میں فرق نہیں آیا وہیں پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ کو بھی کوئی فرق نہیں پڑا۔ حالانکہ اگر ملک اس طرح کے سیاسی بحران کا شکار ہو جہاں حکومت ہر محاذ پر پسپا ہورہی ہو اور اس پسپائی کے دوران وہ اوٹ پٹانگ حرکتیں کررہی ہو تو اس سیاسی افراتفری کا سب سے پہلا اثر اسٹاک مارکیٹ پر ہونا چاہیے۔

پہلے چیف جسٹس کی غیرفعالی کے کرائسسز میں حکومت پھنسی پھر چیف جسٹس کے ہر جگہ عوامی استقبال نے حکومت کے اوسان خطا کردیے۔ بارہ مئی کے کراچی کے فسادات نے تو حکومت کا گراف بہت ہی نیچے گرا دیا۔ اب حکومت نے حالات کو اپنے کنٹرول میں کرنے کیلیے میڈیا پر کریک ڈاؤن شروع کردیا ہے اور پیمرا کا ترمیمی آرڈینینس جاری کیا ہے۔  کل تو پنجاب کے بڑے بڑے شہروں سے سیاسی کارکنوں کو سینکڑوں کی تعداد میں گرفتار کرلیا گیا ہے جو کسی بڑی آفت کا پیش خیمہ لگتا ہے۔ مگر مجال ہے جو اسٹاک مارکیٹ پر جوں تک رینگی ہو۔ بلکہ الٹا کراچی اسٹاک انڈیکس نے پہلی بار تیرہ ہزار کی حد بھی پار کرلی ہے۔ پچھلے دو چار سال میں جتنا پیسہ اسٹاک مارکیٹ میں لوگوں نے بنایا ہے شاید ہی کسی اور نے اپنے کاروبار سے اتنا پیسہ بنایا ہو۔ پاکستانی صنعت درآمدی ڈیوٹیوں میں کمی اور چین کے سستے مال کی وجہ سے بحران کا شکار ہے۔ پاکستان کا تجارتی خسارہ ریکارڈ حدوں کو چھو رہا ہے۔ پراپرٹی کی قیمتیں دھڑام سے گرنے کے بعد کافی عرصے سے جمود کا شکار ہیں مگر دوسری طرف اسٹاک مارکیٹ کا گراف اونچا ہی اونچا جارہا ہے۔ اسٹاک مارکیٹ میں اس تیزی کی وجہ تو کوئی ماہر معاشیات ہی بتا سکتا ہے مگر ہمارے لیے یہ حیرانی سے کم نہیں کہ پاکستانی صنعت بدحالی کا شکار ہونے کے باوجود اپنے حصص کی قیمت اسٹاک مارکیٹ میں کیسے بڑھا رہی ہے۔

یہ تو دنیاوی اصول ہے کہ اگر ملک کی سیاسی صورتحال خراب ہو تو اس کا اثر لازمی طور پر سب سے پہلے اس کی اسٹاک مارکیٹ پر پڑتا ہے کیونکہ سرمایہ دار بے یقینی کی صورتحال میں سرمایہ کاری کا رسک نہیں لیتا۔ اس پر اگر ملک کی صنعت بھی بحران کا شکار ہو اور ملک کی ترقی کا سارا دارومدار غیرممالک میں مقیم پاکستانیوں کی رقم کی ترسیل اور بین الاقوامی امداد پر ہوتو یہ قیاس کرنا مشکل نہیں ہوتا کہ یہ ملک سرمایہ کاری کیلیے خطرناک ہے۔

اسٹاک مارکیٹ میں تیزی کی ایک ہی وجہ ہوسکتی ہے کہ فرڈیے لوگ سادہ دل لوگوں کو ورغلا ورغلا کر سرمایہ کاری کرارہے ہیں اور خود مال بنا رہےہیں۔ جونہی یہ غبارہ پھٹنے کے قریب پہنچا فراڈیے اپنا سرمایہ نکال کر ایک طرف ہوجائیں گے۔ ہمارے خیال میں تو اب وقت ہے کہ اسٹاک مارکیٹ سے اپنا سرمایہ نکال لیا جائے کیونکہ ملک کیلیے یہ سال بہت بھاری معلوم ہورہا ہے اور ملک کا سیاسی بحران خراب سے خراب تر ہوتا جارہا ہے۔ بہتر یہی ہوگا کہ اب یہ دیکھا جائے کہ جنرل مشرف اس بحران میں دوبارہ کیسے انہی اسمبلیوں سے منتخب ہوتے ہیں اور پھر اگلے انتخابات کے بعد کس طرح کا سیٹ اپ بنتا ہے۔ تب تک ہمیں اپنا سرمایہ الگ کرکے دیکھو اور انتظار کرو کے اصول پر عمل کرتے ہوئے گھر بیٹھ جانا چاہیے۔