آج کل پاکستانی سیاست میں بھونچال آیا ہوا ہے اور خبریں اتنی ہوتی ہیں کہ اخبار اور ٹی وی والوں کو ہوش نہیں رہتی کہ وہ کونسی شہ سرخی لگائیں اور کونسی سہ کالمی خبر۔ ابھی آج کے اخبارات کا یہ حال ہے کہ بہت ساری خبروں کی وجہ سے سب سے بڑی خبر کی شہ سرخی لگانے کی نوبت ہی نہیں آئی۔ جنگ نے تو سہ کالمی خبر لگادی مگر ایکسپریس کو اس خبر کیلیے دو انچ جگہ ہی مل پائی۔ خبر یہ ہے کہ جنرل مشرف نے مسلم لیگ ق کے بڑوں سے اہم ملاقات میں فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنا انتخاب موجودہ اسمبلیوں سے نہیں بلکہ اگلی سمبلیوں سے کروائیں گے۔ اس لیے انہوں نے اگلے انتخابات وقت سے پہلے کرانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اگلے چند ہفتوں میں ہوسکتا ہے وزیر اعظم جنرل صدر مشرف کو اسمبلیاں توڑنے کی سفارش بھیج دیں۔

اتنی بڑی خبر کیساتھ ساتھ بہت سی دوسری خبروں نے بھی ہلچل مچا رکھی ہے۔ عمران اور ایم کیو ایم کی ٹسل اور اب سپیکر قومی اسمبلی کا عمران کیخلاف ریفرینس الیکشن کمیشن کو بھیجنا۔ وزارتوں میں رد و بدل کی افواہیں۔ مسلم لیگ ق کے چہیتوں کے ایک بار پھر لوٹے بننے کے اشارے۔ سلمان رشدی کو سر کا خطاب ملنے پرمسلم دنیا میں صرف پاکستان میں احتجاج [اس پر جلد ہی پوسٹ لکھنے کا ارادہ ہے]۔ وزیر مذہبی امور اعجازالحق کا سلمان رشدی پر خودکش حملے کو جائز قرار دینے اور پھر تردید کا بیان، پنجاب اسمبلی کے سپیکر کا سلمان رشدی کو دیکھتے ہی قتل کرنے کی خواہش، بینظیر کا وزیر مذہبی امور کے خودکش حملے کے بیان پر برہمی کا اظہار۔ قرآں حفظ کرنے والے کم عمر طالبعلم کا قتل اور اس کے ملزموں کو مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک کرنے کی خبر۔ ایم کیو ایم کے قائد کی چند روز سے خاموشی۔ پنجاب بنک کا  وسیع پیمانے پر مالی گڑبڑ کے نتیجے میں بند ہونے کا خدشہ۔ لاپتہ افراد کے وارثوں کا ثابت قدمی سے مظاہرے جاری رکھنا۔ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کے کیس میں بیرسٹر اعتزاز احسن کے چوکے اور چھکے۔

اسی طرح بہت سی اہم خبروں کے جمگھٹے نے ہر صحافی کو اتنا مصروف کردیا ہے کہ اسے سر کھجانے کی فرصت نہیں۔ پاکستان میں صحافت کے پیشے نے پچھلے چند سالوں میں جتنی ترقی کی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ اب ہراخبار کے پاس چھ سات کالم نگار موجود ہیں جن کے کالم روزانہ اخباروں میں چھپتے ہیں۔ ٹاک شو بھی روزانہ کسی نہ کسی ٹی وی پر بلاناغہ دکھائے جارہے ہیں۔ امید ہے رائے عامہ ضرور میڈیا کی وجہ سے باخبر ہورہی ہوگی اور اگلے الیکشن میں اچھے اچھے امیدواروں کو چن کر اس باخبری کو ثابت بھی کردے گی۔

 اکثر لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ اگلے دو ماہ پاکستان کی تاریخ میں بہت اہم ہیں۔ ابھی کل ہی جمالی صاحب نے حامد میر کے شو میں بتایا کہ یکم جون سے جولائی دس کو گرمی کا چالیسواں کہتے ہیں، پنجابی میں اسے ہاڑ اور عام زبان میں گرمی کا دورانیہ کہلاتا ہے۔ اس گرمی کا اثر اس دفعہ پاکستان کی سیاست پر بھی پڑنے والا ہے۔ ہم تو دعا گو ہیں کہ اس گرمی سے پاکستان کا وجود نہ جھلسے بلکہ جلد سے جلد مون سون کی ہواؤں سے اس کی فضا گیلی مٹی کی خوشبو سے معطر ہوجائے۔