شاہ زیب کے قاتل کو اس کے ورثاء نے معاف کر دیا ہے اور یہ بحث میڈیا پر چل پڑی ہے کہ شاہ زیب کے والدین نے کیوں شاہ زیب کا قتل معاف کیا؟
ابھی تک جتنے شاہ زیب کے والد نے انٹرویو دیے ہیں وہ کہتے تو یہی ہیں کہ انہوں نے اپنے بیٹے کے قاتلوں کو اللہ کے نام پر معاف کیا۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ ان پر بہت دباؤ تھا۔ ان کا خاندان کہتا ہے کہ ان پر ہر طرف سے دباؤ تھا۔ مقدمے کے دوران شاہ زیب کے والد اور بہن نے ایک اینکر شاہ زیب خانزادہ سے کہا تھا کہ جب وہ عدالت میں جاتے ہیں تو جتوئی فیملی انہیں چھیڑتی ہے، آوازیں کستی ہے۔ کبھی ورثاء کہتے ہیں کہ انہوں نے گواہوں کی زندگیاں محفوظ بنانے کیلیے قاتلوں کو معاف کیا۔ یہ وہی ورثاء ہیں جو کہتے تھے کہ وہ قاتلوں کو کبھی معاف نہیں کریں گے۔ دیت کے سوال پر شاہ زیب کی والدہ نے کہا تھا کہ قاتل اتنی رقم لے لیں اور ہمارا بیٹا واپس لا دیں۔ اب انہی لوگوں پر شک کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے 30 سے 70 کروڑ روپے لے کر قاتلوں کو معاف کیا۔
ہماری سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے یہی استدعا ہے کہ وہ جاتے جاتے ایک اور کام کر جائیں۔ وہ شاہ زیب کے قاتلوں کی معافی مسترد کر دیں اور قاتلوں کو پھانسی پر چڑھا کر ریٹائر ہوں۔ مگر ایسا ہو گا نہیں کیونکہ چیف جسٹس نے بھی ریٹائر ہو کر اسی ملک میں رہنا ہے جہاں انصاف بکتا ہے۔
ہم نے پہلے بھی کہا تھا کہ اگر قاتل غریب ہوتے تو انہیں کبھی معافی نہ ملتی بلکہ ڈی ایس پی کے عہدے کا باپ اپنے بیٹے کے قاتلوں کو مبینہ پولیس مقابلے میں ہی مروا دیتا۔ یہ جیت طاقت اور امارت کی ہوئی ہے۔ یہ وہی امارت اور طاقت ہے جس کی وجہ سے خانہ کعبہ میں داخلہ ملتا ہے اور جنرل مشرف جیسے شرابی آدمی کیلیے بھی یہ فضیلت آسان ہوتی ہے جب کہ عام آدمی کو اس کا غلاف چھونے کی پاداش میں ڈنڈے مارے جاتے ہیں۔