جنرل صدر مشرف نے عورتوں کے بارے میں اپنے ہی آرڈیننس جس کی رو سے چند ماہ قبل ہزاروں خواتین جیلوں سے رہا ہوئیں میں پھر تبدیلی کا آرڈیننس جاری کیاہے جس کی رو سے ان خواتین کو ضمانت کی رعایت واپس لے لی گئ ہے جو دہشت گردی، قتل یا مالی بدعنوانی میں ملوث ہوں گی۔ یہ تبدیلی صرف لال مسجد کے قضیے میں گرفتار ام حسان اور ان کی دو بیٹیوں کی ضمانت رکوانے کیلیے کی گئ ہے۔

اس سےقبل جب عورتوں کے قوانین میں تبدیلی کی گئ تو مالی بدعنوانی کی شک اسلیے شامل نہ کی گئ تاکہ محترمہ بینظیر جو اس وقت حکومت کیساتہ ڈیل کی کوشش کررہی تھیں کو فائدہ ہوسکے۔

جنرل صدر مشرف کا یہ اقدام کوئی انوکھا نہیں ہے اس سے قبل بھی اسی طرح کے قوانین نہ صرف انہوں نے بلکہ پہلے حکمرانوں نے بھی پاس کیے ہیں۔

جنرل ایوب نے قانون پاس کرکے بہت سارے سیاستدانوں کو انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا تھا۔ اسی طرح جنرل ضیا نے اپنی مرضی کی حکومت بنانے کیلیے غیرجماعتی انتخابات کروائے۔

 جنرل مشرف نے خود شروع میں قانون میں تبدیلی کرکے دو بار سے زیادہ وزیر اعظم بننے پر پابندی لگا دی۔ یہ قانون صرف محترمہ بینظیر اور نواز شریف کو دوبارہ وزیر اعظم بننے سے روکنے کیلیے بنایا گیا۔ اگر ان میں سے ایک بھی تین بار وزیر اعظم رہ چکا ہوتا تو قانون میں چوتھی بار وزیراعظم بننے پر پابندی لگائی جاتی۔

جنرل صدر مشرف کی حکومت میں اسمبلی نے ایسا قانون پاس کیا جس میں صرف انہیں وردی میں صدر رہنے کی اجازت ہے کسی اور کو نہیں۔ وہ تو ایم ایم اے کی شرافت تھی جنہوں نے صاف گوئی اور منہ پر سچ کہنے والے کی زبان پر اعتبار کرلیا اور 31 دسمبر 2004 کو ایک عہدہ چھوڑنے کی شق قانون میں شامل نہ کراکے غلطی کی۔ ویسے مولانا فضل الرحمان کے بعد کے اقدامات سے یہ بھی شبہ ہوتا ہے کہ یہ شق جان بوجھ کر قانون میں شامل نہیں کی گئ ہوگی۔

پتہ نہیں حکومت جامعہ حفصہ کی ان تین خواتین کی ضمانت سے کونسا خوف محسوس کررہی ہے جس نے اسے قانون میں تبدیلی کرنے پر مجبور کردیا۔ ہماری روایت تو یہ رہی ہے کہ ہم لڑائی میں عورتوں کو شامل نہیں کیا کرتے۔ اگر مولانا برادران نے پہلے عورتوں کو اپنے احتجاج میں شامل رکھا تو اب حکومت بھی وہی طریقہ اپنا کر عورت کی تذلیل کرنے کی روایت پختہ کررہی ہے۔ یورپ میں اکثر ان لوگوں کی ضمانت لے لی جاتی ہے جن سے دوسرے لوگوں کو کوئی خطرہ نہ ہو۔ ہم نہیں سمجھتے کہ یہ خواتین اگر جیل سے باہر آگئیں تو وہ حکومت یا عوام کیلیے کوئی خطرہ ہوں گی۔

ابھی پتہ نہیں مخصوص لوگوں کیلیے مضصوص اوقات میں مخصوص قوانین کی روایت کب تک چلتی رہے گی اور کب قانون کا اطلاق بناں کسی تفریق کے سب پر ہوگا۔ جنرل صدر مشرف تو آمر ہیں اور ان کا خاندانی پس منظر ایسا نہیں کہ ان کا خاندان بعد میں ایوان صدر میں رہ سکے یا نہیں لیکن ان کے حواری سیاستدانوں کو اپنے حلیفوں کو مد نظر رکھ کر قانون سازی کرنے سے پہلے سوبار سوچنا چاہئے کہ کل کو وہ بھی اسی طرح کے قوانین کی زد میں آسکتے ہیں۔ اس لیے عقل مندی کا تقاضا یہی ہے کہ وہ اپنے مخالفین کو دبانے کیلیے قوانین بنانے میں معاونت نہ کریں تاکہ ملک میں شاندار روایات پروان چڑھ سکیں۔