آج کے ایکسپریس اخبار کی شہ سرخی کیمطابق ایک اور انوکھے سیاسی مقدمے کا انکشاف ہوا ہے۔ خبر کیمطابق لاہور کے شہری سید محمد اقتدار حیدر جو امریکہ میں مقیم ہیں نے لاہور کی بجائے اسلام آباد میں 1997 کے تمام ممبران اسمبلی، سینٹ،  وزیر اعظم اور صدر کیخلاف ایک مقدمہ درج کرایا ہے۔ تھانہ سیکرٹریٹ کی ایف آئی آر نمبر 117 میں لگائی گئ دفعہ پی پی سی 123-اے کی تشریح کے مطابق کوئی آدمی پاکستان یا پاکستان سے باہر ایسا عمل کرے جو پاکستان کی سلامتی کیلیے خطرہ ہو اور اسکے اقتدار اعلٰی کو خطرے میں ڈال دے جبکہ علاقائی حدود ميں لفظی یا لکھے ہوئے مواد سے اسکا اظہار کرے کہ پاکستان کا بننا ٹھیک نہیں تھا اور اسکا اظہار کرے کہ پاکستان ختم ہونا چاہئے یا کسی اور ملک سے الحاق کرے وہ پاکستانی قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوگا۔ ایف آئی آر کیمطابق 1997 کے الیکشن کی گنتی کے وقت جو پارلیمانی ہاؤس اسلام آباد میں ہوئی ایک بیلٹ پیپر ایسا بھی نکلا جس پر پختونخواہ زندہ باد اور پاکستان مردہ باد لکھا تھا۔ اس پر نہ وزیر اعظم نواز شریف اور نہ ہی صدر رفیق تارڑ نے کوئی انکوائری شروع کروائی اور نہ ہی ممبران اسمبلی اور سینٹ نے کوئی قراداد مزمت منظور کی۔ اس مقدے کی زد میں جہاں مسلم لیگ ن کے بہت سارے لیڈر آتے ہیں وہیں مسلم لیگ ن کے لوٹے [جو مسلم لیگ ق میں اب شامل ہیں] بھی لپیٹ میں آتے ہیں۔

پاکستان کی تاریخ اس طرح کے سیاسی مقدمات سے بھری پڑی ہے جن میں مقدمات کی اکثریت عدالتوں میں بھی نہ پیش ہوسکی اور یہ صرف مخالفین کو ڈرانے کیلیے استعمال کیے گئے۔ جو مخالفین نہ ڈرے انہیں عدالتوں میں پیش کرکے سزا دلوائی گئ۔ جاوید ہاشمی کے غداری کے مقدمے کی مثال ابھی تازہ ہے جس میں انہیں فوج کیخلاف پمفلٹ چھاپنے پر سزا دی گئ جس کا انہوں نے سرے سے انکار کیا۔ اسی طرح بینظیر کے دور میں موجودہ وزیر وفاقی وزیر ریلوے کو کلاشنکوف رکھنے کے جرم میں جیل بھجیا گیا۔ اس سے قبل بھٹو دور میں چوہدری شجاعت کے والد چوہدری ظہور الٰہی کیخلاف بھینسوں کا مقدمہ بہت مشہور ہوا تھا۔

قانون کی شک پی پی سی 123-اے کے استعمال کا اس وقت بہترین موقع تھا جب ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے ہندوستان میں پاکستان کے بننے کو بلنڈر مسٹیک کہا تھا اور اس کا ثبوت بھی ویڈیو کی شکل میں موجود تھا۔ مگر الطاف صاحب اسی طرح مقدمے سے بچ گئے جس طرح یحٰی نے مجیب الرحمٰن کو غداری کے مقدمے کے باوجود نہ صرف رہا کیا بلکہ آدھا ملک بھی اسے تحفے میں دے دیا۔ مجیب الرحمٰن کی بھی پاکستان کیخلاف تقریریں الطاف صاحب کی طرح ریکارڈ پر ہیں۔ پتہ انہیں عمران خان نے الطاف صاحب کی اس تقریر کی بنیاد پر پاکستان میں ان کیخلاف غداری کا مقدمہ کیوں درج نہیں کروایا اور سارا زور لندن میں مقدمات درج کرانے پر لگا دیا۔ 

پاکستان کی تاریخ میں بہت سارے مقدمات ایسے ہیں جو التوا میں ڈال دیے گیے اور ان کو صرف ڈراوے کیلیے استعمال کیا گیا۔ انہی مقدمات کے زور پر موجودہ حکومت نے پی پی پی کے ارکان کو توڑ کر اپنے ساتھ ملایا اور انہیں وزیر بنا دیا۔ انہی مقدامات کے زور پر بینظیر کو ملک سے باہر رکھا گیا اور اب ان سے ڈیل کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ انہی مقدمات کے زور پر ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل کیا گیا اور مقدمات کی زد میں آئے ہوئے ایک رکن کو سندھ کا گورنر بنا دیا۔

ہماری انتظامیہ اور عدالتیںدنیا کے ناکام ترین محکمے ہیں جو صرف اور صرف حکومت کو سپورٹ کرتے ہیں اور حکومت کے ایما پر سفید کو سیاہ بنا دیتے ہیں۔ یہی تھانے اور عدالتیں ایک طرف جاوید ہاشمی کو سزا دیتی ہیں اور دوسری طرف کراچی کے فسادات پر خاموش رہتی ہیں۔ یہی تھانے اورعدالتيں اگر جاوید ہاشمی اور یوسف رضا گیلانی کو ذلیل کرتی ہیں تو دوسری طرف فیصل صالح حیات اور ان کے پیٹریاٹ گروپ کو کچھ بھی نہیں کہتیں۔

موجودہ مقدمے کا شاخسانہ بھی صرف اور صرف نواز شریف کو ملک آنے سے روکنے کے سوا کچھ نہیں۔ اسی مقدمے کا اگر ایک طرف نواز شریف پر اطلاق ہوگا تو دوسری طرف اس دور کے نواز شریف کی جماعت کے لوٹے موجودہ سیٹ اپ میں حکومت کے مزے لوٹتے رہیں گے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ بحال شدہ چیف جسٹس اس طرح کے حکومتی ذہنی خلل کا نوٹس لیں۔ نہیں ابھی وہ وقت نہیں آیا اور نہ ہی ہماری عدالتوں میں ابھی اتنی طاقت ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کیساتھ ٹکر لے سکیں۔

ہم نے تو دنیا میں انصاف کو بکتے ہوئے ہی دیکھا ہے۔ چاہے ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی پذیر، صرف غریب ہی قانون کی زد میں آتے ہیں۔ امیر اپنی دولت کے بل بوتے پر سزا سے بچ جاتے ہیں اور اگر خدانخواستہ انہیں سزا ہو بھی جائے تو حکمران انہیں معاف کردیتے ہیں۔ دنیا کی جدید جمہوریت کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں ایک حکومتی اہلکار کو جسٹس میں رکاوٹ ڈالنے کی سزا ہوئی مگر صدر نے اس کی سزا معاف کردی اور اپنے دور صدارت کے ختم ہونے سے پہلے انہیں پارڈن بھی کریں گے تاکہ ان کا کریمنیل ریکارڈ صاف ہوجائے۔

یہ بات ریکارڈ پر ہے جب تک مسلمان حکومتوں نے انصاف غریبوں تک پہنچایا وہ زندہ رہیں اور جونہی وہ اقربا پروری اور خود غرضی کا شکار ہوئیں ان کا دنیا سے نام و نشان مٹ گیا۔ مگر ہم اپنی تاریخ سے سبق سیکھنے والوں میں سے نہیں ہیں۔ ہم تو کرسی کیلیے کچھ بھی کرگزرنے کو تیار ہیں چاہے اسکیلیے ہمیں آدھا ملک ہی کیوں نہ گنوانا پڑے۔