سٹیٹ بنک نے ایک ہزار روپے کے جو نوٹ جاری کئے ہیں ان پرپاکستان کے جھنڈے کی بجائے ترکی کا جھنڈا چھاپ دیا گیا ہے۔ ہوسکتا ہے پاکستان کے جھنڈے کو سبز رنگ کرنے کی بجائے سرخ رنگ کردیا گیا ہو۔

 نوٹ جاری کرنے اور چھاپنے سے پہلے پتہ نہیں کتنے لوگ اس کو چیک کرتے ہوں گے اور کیوں ان سب کوالٹی انسپکٹروں کو یہ عام سی غلطی نظر نہیں آئی۔ یہ تو اب حکومت تحقیق کرے گی تو پتہ چلے گا کہ کس کی غلطی ہے۔ اس نوٹ پر سٹیٹ بنک کی گورنر کے بھی دستخط موجود ہیں اور وہ بھی اس غلطی کو پکڑنے میں ناکام رہیں۔

بے ایمانی اور فراڈ حکومت کے دوسرے محکموں میں تو پہلے ہی عام تھا اب سٹیٹ بنک بھی اس کی زد میں آچکا ہے۔ شکایت یہ ہے کہ ہزار کے نوٹوں کا بنڈل یعنی گڈی یا دتھی جو پہلے سٹیبل کی جاتی تھی اب اس پر ربڑ بینڈ چڑھایا جاتا ہے تاکہ اس میں سے ایک آدھ نوٹ کھسکانا آسان رہے۔ عام لوگوں نے اس بات کی شکایت بھی کی ہے کہ نوٹ کم ہوتے ہیں۔ ہمیں یاد ہے 1979 میں ہمارا بھائی ہمیں موٹر سائیکل خریدنے کیلیے لاہور لے گیا۔ جب ہنڈا 100 سی سی کی دس ہزار روپے ادائیگی کی جانے لگی تو 100 روپے والے نوٹ کے بنڈل سے نوٹ کم نکلے حالانکہ وہ سٹیپل کیے ہوئے تھے۔ بھائی کو یاد آیا کہ جب انہوں نے درہم روپوں میں بدلے تو نوٹ گنے بغیر جیب میں ڈال لیے۔ بھائی کو یقین ہوگیا کہ نوٹ بدلنے والے نے انہیں نوٹ کم دیے تھے۔

ہمیں امید ہے کہ ہماری حکومت اس غلطی کو سنجیدگی سے لے گی اور غلطی کرنے والی کو ضرور سزا دے گی اگر غلطی کرنے والا کسی اہم شخصیت کا رشتے دار نہ ہوا تو۔