محرم کی دسویں کو وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ شیعوں نے مسجد کے سامنے جان بوجھ کر زیادہ وقت سینہ کوبی کی، وہابیوں نے جمعہ کے خطبہ میں واقعہ کربلا کو اپنے رنگ میں پیش کر کے سانحہ کے وقوع میں برابر کا کردار ادا کیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا سب نے دیکھا۔
مسئلہ
دہشت گردی کی مسلط شدہ جنگ نے ملک کو معاشی طور پر تباہ کر دیا ہوا ہے۔ لوگ فرسٹریشن کا شکار ہیں اور عوام کی اکثریت ڈیپریشن کی مریض بنتی جا رہی ہے۔ ان حالات میں چھوٹی سی غلطی بھی عوام کے جذبات کو بھڑکانے کیلیے کافی ہوتی ہے۔
شیعہ سنی/وھابی کا مقابلہ جب سے ملک بنا ہے جاری ہے۔ شیعہ صرف محرم میں دسویں کے جلوسوں میں سنی/وہابی کو طیش میں لانے کی کوششیں کرتے ہیں اور سنی/وہابی اس طیش کے بدلے میں شیعوں کیخلاف اپنی تقریروں میں اپنا غبار نکالتے ہیں۔
جہاں بھی غربت بڑھی ہے وہاں عزت نفس بھی خطرے میں پڑی ہے۔ یہی وجہ ہےدنیا کے جس بھی خطے میں لوگوں نے مذہب تبدیل کیا ہے وہ غریبوں نے کیا ہے۔ یہی وجہ ہے ہمارے ملک میں شیعوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے کیونکہ شیعہ فرقہ باوا جی، شاہ جی کے روپ میں غریبوں کی حفاظت کرتا ہے۔
شیعہ فرقہ چونکہ رنڈی بازی، کنجرخانے میں کافی رعایت دیتا ہے جس کی وجہ سے ہمارے میڈیا کی اکثریت شیعہ ہے۔ یہی میڈیا کے لوگ آج کل ٹی وی چینلوں پر قبضہ کیے بیٹھے ہیں۔ اسی وجہ سے جب بھی شیعہ سنی/وہابی فساد ہوتا ہے میڈیا شیعوں کی حمایت زیادہ کرتا ہے۔
غیرجانبداری سے دیکھا جائے تو سانحہ راولپنڈی کے دونوں فرقے برابر کے ذمہ دار ہیں۔
حل
اس مسئلے کا حل ہم نے پچھلے سال پیش کیا تھایعنی مذہبی اجتماعات کیلیے سٹیڈیم کی جگہ مختص کی جائے۔
اگر غور سے دیکھا جائے تو اس تمام مسئلے کا حل دہشت گردی کی مسلط شدہ جنگ سے چھٹکارا ہے۔ جتنی جلدی ہو سکے پاکستان کو اس جنگ سے اپنی جان چھڑا لینی چاہیے۔
شیعہ میڈیا کو شیعوں کی طرف داری کی بجائے پاکستان کی طرفداری کرتے ہوئے اصل حقائق عوام کو دکھانے چاہئیں۔
لگتا نہیں کہ ہماری حکومت اس مسئلے کے حل پر سنجیدگی سے غور کرے۔ اتنا بڑا سانحہ ہوا اور ہمارے وزیراعظم اپنا غیرملکی دورہ ادھورا چھوڑ کر ابھی تک واپس نہیں لوٹے۔ خدا ہی ہمارے ملک کی حفاظت کرے کیونکہ سیاستدانوں سے کسی اچھائی کی توقع نہیں ہے۔
سانحہ راولپنڈی کے ذمہ داروں پر دہشت گردی کی عدالت میں مقدمہ چلا کر جلد سے جلد انہیں سزا دی جائے۔ مگر ایسا نہیں ہو گا کیونکہ اس طرح جس بھی فرقے کے افراد کو سزا دی گئی وہ ملک میں فرقہ وارانہ فساد پیدا کر دے گا۔ ہماری حکومت میں اتنی طاقت ہے نہیں کہ وہ کسی بھی فرقے کی مخالفت کو برداشت کر سکے۔ اس لیے اس سانحے پر کمیشن بیٹھے گا اور بس معاملہ داخل دفتر کر دیا جائے گا۔
جن کے گھر والے قتل ہوئے محرم تو ان کیلیے اب شروع ہوا ہے جو اب ساری زندگی ان کیلیے ماتم کرتے رہیں گے۔
مسجد کے طالبعلم کا اپنا بیان یہاں دیکھیے۔