جنرل صدر مشرف کی پانچ سالہ مدت ختم ہورہی ہے اور وہ بھی اسمبلی کی قانونی مدت کے ختم ہونے سے چند گھنٹے قبل۔ یہی جواز انہیں اور ان کی وردی سے فائدہ اٹھانے والے حواریوں کو جنرل مشرف کو اسی اسمبلی سے منتخب ہونے کیلیے اکسا رہا ہے۔

اگر اخلاقی طور پر دیکھا جائے تو اس مسئلے کا حل بڑا سیدھا سا ہے۔ یعنی اسمبلیوں کو ایک دو ماہ قبل تحلیل کرکے نئے انتخابات کا اعلان کردیا جائے اور اس طرح آئین کی رو سے موجودہ صدر نئی اسمبلیوں کے بننے تک اپنے عہدے پر موجود ر ہیں۔ جب ممبران اسمبلی اگلے پانچ سال کیلیے حلف اٹھا لیں تو پھر جنرل مشرف اپنے آپ کو اگلے پانچ سال کیلیے انتخاب کیلیے پیش کردیں۔

لیکن یہ اخلاقی کردار کی راہ جنرل مشرف اور ان کے سیاسی حواریوں کو قبول نہیں اور اس کی صرف اور صرف وجہ یہ ہے کہ انہیں یہ یقین نہیں کہ وہ اگلے انتخابات میں دوبارہ جیت کر حکومت بنا سکیں گے کہ نہیں۔ اسی لیے جنرل مشرف چاہتے ہیں کہ وہ موجودہ اسمبلیوں سے ہی دوبارہ صرر منتخب ہوجائیں چاہے اسکلیے انہیں اپنے اخلاق کی قربانی دینی پڑے۔ دوسرے جنرل مشرف اور ان کے حواری چاہتے ہیں کہ ان کی وردی کے زور پر ان کے حامی اگلے الیکشن میں دوبارہ جیت کر حکومت بنانے کے قابل ہوجائیں۔ جنرل مشرف اور ان کے حواری ہوسکتا ہے اس خودغرضی والی راہ میں حائل مشکلات سے آگاہ ہوں مگر وہ اگلے انتخابات میں ہارنے کے رسک پر ان مشکلات کو ترجیح دینے پر تلے ہوئے ہیں۔

اس سارے ڈرامے میں بینظیر جو کردار ادا کرنے جارہی ہیں اس کا نقشہ کچھ اس طرح بنتا ہے۔ وہ جنرل مشرف کے دوبارہ باوردی صدر منتخب ہونے میں رکاوٹ نہیں بنیں گی اور انتخابات کے دوبارہ اعلان کے بعد وطن واپس آئیں گی۔ ہوسکتا ہے جنرل مشرف اپنے صدارتی انتخاب کے بعد وردی اتارنے کا اعلان کردیں اور بینظیر جنرل مشرف کے اس اقدام کو اپنی کامیابی قرار دے کر انتخابات میں اسے نعرے کے طور پر استعمال کریں۔

مولانا فضل الرحمان کو بھی فائدہ جنرل مشرف کے دوبارہ صدر منتخب ہونے میں ہی نظر آرہا ہے۔ اسی لیے وہ بار بار اپوزیشن کو احتجاجی تحریک چلانے کے خطرات سے آگاہ کرکے ڈرا رہے ہیں۔ وہ جب کہتے ہیں کہ اپوزیشن نے اگر جنرل مشرف کو زیادہ تنگ کیا تو ملک میں مارشل لاء بھی لگ سکتا ہے اس کا مطلب یہی ہے کہ موجودہ سیٹ کو چلنے دیا جائے تاکہ ان کی صوبائی حکومتیں اور حزب اختلاف کی کرسی بچی رہے۔

جنرل مشرف، ان کے حواری اور بینظیر ایک ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں ایک طرف اخلاقی کردار ہے جو امن کی طرف اشارہ کررہا ہے اور دوسری طرف خود غرضی ہے جو افراتفری کا سبب بن سکتی ہے۔ اب فیصلہ جنرل مشرف کے ہاتھوں میں ہے کہ وہ اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلے اسمبلیاں تحلیل کرکے اگلے انتخابات کا اعلان کرتے ہیں یا پھر خود غرضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک میں دنگا فساد کا سبب بنتے ہیں کیونکہ اپوزیشن بشمول وکلاء اس بات پر تیار بیٹھے ہیں کہ وہ جنرل مشرف کو دوبارہ انہی اسملبوں سے منتخب نہیں ہونے دیں گے۔