یہ بات تو کسی شک وشبہ سے بالا تر ہے کہ نواز شریف اور ان کا خاندان ایک معاہدے کے تحت ملک بدر ہوا تھا۔ اس طرح نواز شریف شہباز شریف نے جیل کے مچھروں سے جان چھڑا لی اور جنرل مشرف دس سال کیلیے ان سیاسی مچھروں کے کاٹنے سے محفوظ ہوگئے۔ اس طرح یہ سودا دونوں پارٹیوں نے اپنے اپنے مفادات کی خاطر کیا۔ نواز شریف نے اپنے مفاد کو ملکی اور دوستوں کے مفاد پر ترجیح دی اور اپنی ٹیم کو بے یارومددگار چھوڑ کر سعودی عرب چلے گئے۔ جو ساتھی وہ اپنے پیچھے چھوڑ گئے ان میں سے بھی اکثریت نے اپنے لیڈر کی پیروی کی اور انہوں نے بھی ذاتی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے جنرل مشرف کی جھولی میں پناہ لے لی۔ باقی بچ جانے والے جیل چلے گئے یا حزب اختلاف میں بیٹھ کر اپنے مفادات کا دفاع کرتے رہے۔

اگر قانونی طور پر دیکھا جائے تو سادے کاغذ پر لکھی تحریر کی اسی طرح کوئی اہمیت نہیں جس طرح جنرل مشرف نے ٹی وی پر قوم سے وردی اتارنے کے وعدے کو کوئی اہمیت نہیں دی تھی اور جواز یہ پیش کیا تھا کہ انہوں نے کوئی تحریری وعدہ نہیں کیا تھا۔ اسی طرح اب نواز شریف بھی یہ جواز پیش کرسکتے ہیں کہ یہ تحریر نہ کسی حکومت کیساتھ معاہدے کی صورت میں لکھی گئی ہے اور نہ ہی یہ عدالتی بیان ہے۔ اس طرح نواز شریف عدالت میں کہ سکتے ہیں کہ یہ تحریر جنرل مشرف کیساتھ معاہدہ نہیں تھا بلکہ ایک قیدی سے زبردستی لککھوائی گئ تھی۔

اب یہ سپریم کورٹ پر منحصر ہے کہ وہ اس تحریر کو کس زمرے میں لیتی ہے۔ دوسری طرف حکومت نے تین ہفتے کی مہلت مانگی ہے تاکہ سعودی حکومت سے نواز شریف کے معاہدے کی کاپی حاصل کی جاسکے۔ جو معاہدہ نواز شریف نے سعودی حکومت کیساتھ کیا ہے اس کی کورٹ کی نظر میں کیا وقعت ہے اور کیا وہ معاہدہ نواز شریف کو پاکستان واپس آنے سے روک سکتا ہے ان سب باتوں کا فیصلہ سپریم کورٹ نے کرنا ہے۔

نواز شریف کے سپریم کورٹ میں جانے کے بعد سے حکومت نے پرانے مقدمے دوبارہ کھولنے شروع کردیے ہیں اور نیب کو بھی متحرک کردیا ہے۔ یہ باتیں بھی ہورہی ہیں کہ نواز شریف کی معاف کی گئی سزائیں بھی دوبارہ بحال ہوسکتی ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ سارے کیسز جنرل مشرف کے وہ سیاستدان ساتھی کھولنے پر اسرار کررہے ہیں جو کبھی نواز شریف کیساتھ رہے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ سیاستدان گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہیں اور کل کو انہیں کونسا رنگ بدلنا پڑے یہ انہیں بھی معلوم نہیں ہوتا۔

ہماری سیاست مکمل طور پر ذاتی مفادات کا گورکھ دھندہ بن کر رہ گئی ہے۔ جنرل مشرف نے جب نواز شریف سے معاہدہ کرکے انہیں جلاوطن کیا تو وہ بقول انہی کے کروڑوں روپے کے میاں خاندان کے گھپلوں کو بھی بھول گئے۔ اسی طرح نواز شریف نے جلاوطنی اختیار کرکے اپنی پارٹي کے کارکنوں کو بے یارومددگار چھوڑ دیا۔

اب آنے والے دو ماہ بہت اہم ہیں اور دیکھنا یہ ہے کہ کون کتنا زیادہ ذاتی مفاد حاصل کرتا ہے اور کس طرح؟ پچھلے سات سال کی سیاست میں ابھی تک ہمیں ایک بھی ایسا شخص نظر نہیں آیا جس نے ملکی مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دی ہو۔ ابھی تک عمران خان کا دامن باقی سیاستدانوں کے مقابلے میں کچھ کچھ صاف ہے مگر ان کے کردار کا تب تک اندازہ لگانا مشکل ہوگا جب تک وہ اقتدار حاصل کرکے آزمائے نہیں جاتے۔

کتنا اچھا ہو اگر حکومتی سیاستدان اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر نواز شریف اور بینظیر کو غیرمشروط پاکستان واپس آنے کی اجازت دلوا دیں اور اپنی قسمت اگلے انتخابات میں آزمائیں۔ مگر حکومتی سیاستدان عوامی غضب کو چیف جسٹس کی بحالی کی مہم میں دیکھ چکے ہیں اسلیے وہ ملکی مفاد میں کوئی اییسا رسک لینے کیلئے تیار نہیں جس کی وجہ سے ان کے ذاتی مفادات کو نقصان پہنچے۔