یہ پرانا مقولہ ہے کہ قانون ڈکٹیٹر، جاہل اور خودغرض حکمرانوں کیلیے موم کی ناک کی طرح ہوتے ہیں وہ جب چاہیں اسے جس طرف موڑ لیں۔ پاکستان الیکشن کمیشن کے سربراہ کے تقرر کیلیے ایک ایسے آدمی کو حکومت نے منتخب کیا جو قانونی طور پر اس کا اہل نہیں تھا۔ یعنی جسٹس رانا بھگوان داس جو پہلے پبلک سروس کمیشن کے سربراہ تھے اور ابھی انہیں اس ملازمت کو چھوڑے دو سال نہیں ہوئے اس لیے وہ کسی بھی دوسری سرکاری نوکری کیلیے اہل نہیں تھے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت قانون کا احترام کرتی اور کسی اور شخص کو الیکشن کمیشن کا سربراہ مقرر کرتی۔ مگر حکومت نے ایک آدمی کیلیے قانون کو ہی بدل ڈالا اور حیرانی کی یہ بات ہے کہ پورے ایوان میں کسی ایک نے بھی اس بل کی مخالفت نہیں کی۔
دوسری طرف جسٹس رانا بھگوان داس جو ساری عمر قانون و انصاف کی کرسی پر بیٹھے رہے ہیں ان میں بھی اتنی اخلاقی جرات پیدا نہیں ہوئی کہ وہ اس عہدے کو ٹھکرا دیتے۔
ہمارے خیال میں رانا بھگوان داس جتنے مرضی اچھے جج رہے ہوں مگر سپریم کورٹ سے ریٹائر ہونے کے بعدانہیں یکے بعد دیگرے جو سرکاری عہدے ملے ہیں ان میں ان کی اہلیت کم اور حکمرانوں کا اقلیتوں کا خیال رکھنے والے دکھاوے کا عنصر زیادہ ہے۔ زرداری اور میاں برادران نے رانا بھگوان داس کو سرکاری عہدے دے کر عالمی طاقتوں کو یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کا کتنا خیال رکھا جاتا ہے۔ مگر پاکستانیوں کو معلوم ہے کہ زمینی حقائق اس سے بالکل مختلف ہیں۔ جتنی اقلتیں مذہب، ذات برادری اور چھوٹے بڑے عہدوں کی بنیاد پر ذلیل ہوتی ہیں اتنی یورپ میں ذلیل نہیں ہوتیں۔
اب بھی جسٹس رانا بھگوان داس کیلیے موقع ہے کہ وہ قانون میں ترمیم کے باوجود الیکشن کمیشن کے سربراہ کے عہدے کو ٹھکرا کر ثابت کریں کہ وہ صرف نام کے ہی بھگوان نہیں بلکہ وہ بھگوانی مساوات کی خوبی کے بھی مالک ہیں۔