حامد میر پر قاتلانہ حملے کے بعد جیو کی آئی ایس آئی پر تنقید کے بعد میڈیا دو حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے ۔ اس تقسیم کا نقصان صحافیوں کو ہوا ہے کیونکہ حامد پر قاتلانہ حملے کی مشترکہ مذمت نہیں کی گئی بلکہ میڈیا حامد میر کو بھول کر آئی ایس آئی کی حمایت اور مخالفت میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوششوں میں مصروف ہو چکا ہے۔ ظاہر ہے جب گھر میں پھوٹ پڑے گی تو محلےدار اس کا فائدہ ضرور اٹھائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ انڈین میڈیا نے آئی ایس آئی پر تابڑتوڑ حملے شروع کر دیے ہیں۔
حامد میر اور جیو کو ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ فوج پاکستان میں سب سے طاقتور ادارہ ہے اور آئی ایس آئی فوج کا وہ مضبوط ادارہ ہے جو حکومتیں بنانے اور توڑنے میں فوج کی مدد کرتا ہے۔ اگر تین چوتھائی اکثریت والا وزیراعظم اس طاقت کے آگے بے بس رہا تھا تو پھر حامد میر کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں۔ ویسے بھی حامد میر کے ادارے جیو نے امن کی آشا جیسے پروجیکٹ شروع کر کے فوج پر کوئی اچھا تاثر نہیں چھوڑ رکھا۔
حامدمیر، آئی ایس آئی اور حکومت کی لڑائی سے تو لگتا ہے کہ سب لوگ طاقت کے نشے میں دھت ہیں اور کسی کو ہوش ہی نہیں ہے کہ وہ حامد میر پر ہونے والے قاتلانہ حملے کیخلاف قانونی چارہ جوئی کر سکے یا اس حادثے کے محرکات کا پتہ چلا سکے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حامد میر تھانے میں ایف آئی آر درج کراتے، حکومت اس دہشت گردی کا سراغ لگانے کی کوشش کرتی اور جیو انصاف کیلیے سپریم کورٹ کا رخ کرتا۔ مگر نہیں سب کٹھ پتلی ہیں اور جس کے اشارے پر ناچ رہے ہیں فائدہ اسی کو ہو گا باقی سب گھاٹے میں رہیں گے۔