ہمارے ایک باریش دوست جو بچپن سے پانچ وقت کے نمازی ہیں کو ایس اینڈ ٹی کے سکالرشپ پر پی ایچ ڈی کرنے کا موقع ملا اور وہ سرکاری ملازمت سے چھٹی لے کر امریکہ چلے گئے۔ اس سے پہلے وہ آرمی کی اڑھائی سال لازمی سروس بھی کرچکے تھے۔ وہ  اپنے دوست احباب میں ایماندار، مخلص اور محنتی مشہور ہیں۔  امریکہ جانے سے پہلے جب دوستوں نے انہیں مشورہ دیا کہ موقع اچھا ہے تعلیم حاصل کرکے واپس نہ آنا اور ادھر ہی سیٹ ہوجانا کیونکہ ملک میں پڑھے لکھوں کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ مگر ہمارے دوست مضر رہے کہ وہ واپس آئیں گے اور اپنے ملک کی خدمت کریں گے۔

دوست نے ایم ایس سی اعلٰی نمبروں سے کی اور گرمیوں کی چھٹیوں میں اپنی فیملی سے ملنے پاکستان آگئے۔ ابھی انہیں آئے ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا تھا کہ وہ ایک مشکل میں پھنس گئے۔

ہوا یہ کہ چند سال قبل راولپنڈی کے حبیب بنک کی ایک برانچ میں ڈاکہ پڑا تھا اور اس ڈکیتی کا سرغنہ ایک سال قبل دوست کے پڑوس میں آ کر رہنے لگ تھا۔ کسی طرح پولیس کو اس کے ٹھکانے کا پتہ چل گیا اور اسے پکڑنے کیلیے اس کے گھر ریڈ کردیا۔ جب پولیس نےاس کا پیچھا کیا، تو ڈاکو نے اپنے گھر کی چھت سے دوست کے گھر چھلانگ لگا دی۔ پولیس نے اسے پکڑنے کیلیے دوست کے گھر کو گھیرے میں لے لیا اور آنسو گیس کے شيل پھینکے۔ ڈاکو نے گھبرا کر ہتھیار ڈال دیے اور پولیس نے اسے دوست کے گھر سے گرفتار کرلیا۔

 جب پولیس چلی گئی تو دوست کو معلوم ہوا کہ اس کا بریف کیس غائب ہے جس میں اس کی کچھ رقم، واپسی کی ٹکٹ، پاسپورٹ ویزہ سمیت اور تعلیمی اسناد تھیں۔ اس نے پولیس سے رابطہ کیا مگر پولیس نے لاعلمی کا اظہار کیا حالانکہ اس دن صرف پولیس اس کے گھر گھسی تھی اور بریف کیس پولیس کے آنے سے پہلے اس کے گھر موجود تھا۔ اسے سو فیصد یقین تھا کہ پولیس ہی اس کا بریف اٹھا کر لے گئ ہے مگر اس کی اتنی اپروچ نہیں تھی کہ وہ پولیس سے بریف واگزار کراسکے۔

 اس کے بعد پولیس نے اسے تھانے بلایا اور ڈاکو کے مقدمے میں گواہ بنا لیا۔ دوست کی باقی چھٹی اپنے کاغذات بنوانے اور تھانے کچہریوں میں گواہی دینے میں گزر گئی۔

 دوست جب واپس جانے لگا تو وہ بہت زیادہ اپ سیٹ تھا۔ دوست کے امریکہ واپس جانے کے بعد پولیس والوں نے اس کی فیملی کو تنگ کرنا شروع کردیا۔ پولیس کی اس حرکت سے دوست ذہنی طور پر پریشان رہنے لگا اور یہ پریشانی اس کی پڑھائی پر اثر انداز ہونے لگی۔ اسی دوران دوست نے اپنی فیملی کو بھی امریکہ بلالیا مگر اس کی ذہنی کیفیت نے اسے پڑھائی ترک کرنے پر مجبور کردیا۔ دوست نے پی ایچ ڈی ادھوری چھوڑی اور نیویارک آگیا۔

نیویارک میں اس نے بہت لمبی سٹرگل کی اور کئی سال محنت مزدوری کرنے کے بعد آخر کار اسے گرین کارڈ مل گیا۔ گرین کارڈ ملنے کے بعد اسے اپنے پروفیشن میں نوکری مل گئی اور تب سے وہ امریکہ میں سیٹل ہے۔

 اس کے بعد دوست کی حب الوطنی کو ایسی بری نظر لگی کہ اس نے واپسی کا ارادہ ہی ترک کردیا۔ وہ دن اور آج کا دن سترہ سال ہونے کو ہیں وہ پاکستان واپس نہیں گیا۔ دوست ملک کی خدمت کرنے کا وعدہ تو ایفا نہ کرسکا مگر اپنی تعلیم پر خرچ کی ہوئی پاکستان کی ایک ایک پائی واپس کررہا ہے حالانکہ یہ قرض اس کی معاشی زندگی پر بہت بڑا بوجھ ثابت ہوا۔ اسی وجہ سے اس کے دوستوں نے اسے مشورہ دیا کہ اگر اس نے پاکستان واپس جانا ہی نہیں ہے تو پھر قرض واپس کرنے کا کیا فائدہ۔ مگر وہ قائل نہیں ہوا اور اس سال وہ قرض کی آخری قسط ادا کردے گا۔

جب کبھی بھی پاکستان کی خدمت کے وعدے کی دوست سےبات ہوتی ہے تو وہ فضا میں گھورنا شروع کردیتا ہے اور اس کا ایک یہی جواب ہوتا ہے کہ شاید اس میں اتنا حوصلہ نہیں تھا کہ وہ اس کڑے امتحان میںسرخرو ہوسکتا۔