پاکستان میں سیاسی شطرنج کی بساط بچھائی جاچکی ہے اور مہروں نے چالیں چلنا شروع کردی ہیں۔ اس کھیل میں ہر کسی کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے اور کسی کو پاکستان کی پرواہ نہیں ہے۔  آئیں ان مہروں کی چالوں کا جائزہ لیں اور اندازہ لگائیں کہ کون بادشاہ کو کیسے شہ دے گا اور بادشاہ اس شہ سے کس طرح بچے گا۔

بینظیر بھٹو – یہ مہرہ چاہتا ہے کہ اس کے مقدمات ختم کردیے جائیں تاکہ اپنے اقتدار کے پہلے دو ادوار میں لوٹي ہوئی قومی دولت کو حلال قرار دے دیا جائے۔  قانون میں دوبار سے زیادہ وزیراعظم کی پابندی ختم کرنے کیلیے ترمیم کی جائے۔ بینظیر کو معلوم ہے کہ ہمارا قانون دنیا کا واحد قانون ہے جس میں صرف ایک آدمی کیلییے خصوصی ترمیم کی جاسکتی ہے۔ ہمیں تو شک ہے کہ اگر بینظیر کی یہ تجویز مان لی گئی تو وہ قانون میں ترمیم اس طرح چاہیں گی کہ عورت تو دو بار سے زیادہ وزیراعظم بن جائے مگر مرد نہ بنیں۔ اسی طرح ہمارے موجودہ وزیراعظم کو بھی اس ترمیم سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کیونکہ انہیں یقین ہی نہیں ہے کہ دوسری بار وزیر اعظم بننے کا انہیں موقع ملے گا بھی کہ نہیں۔ بینظیر اس کے بدلے پرویز مشرف کو وردی کے بغیر صدر ماننے کو تیار ہیں۔ بینظیر یہ بھی چاہتی ہیں کہ صدر کے اسمبلی توڑنے کے اختیار کوبھی ختم کردیا جائے تاکہ ملک میں خالص پارلیمانی نظام بحال ہوسکے۔ بینظیر نے اب تک کوئی ایسا مطالبہ نہیں کیا جس کی رو سے پاکستان کی غریب عوام کا بھی بھلا ہو یعنی نہ مہنگائی کی بات کی ہے اور نہ بجلی کے بحران کو مذاکرات کا حصہ بنایا ہے۔

جنرل مشرف – یہ مہرہ نہیں بلکہ بادشاہ ہے اور چاہتا ہے کہ اسے اگلے پانچ سال کیلیے نہ کوئ شہ دے اور نہ مات۔ ان کے پاس اسمبلی تورنے کا اختیار رہے اور وہ اس کوشش میں بھی ہیں کہ وردی بھی نہ اترے۔ جنرل صاحب وردی کی قربانی دینے کیلیے بھی ایک حد تک تیار ہیں۔ ان کی اس خواہش کے پیچھے ان کے آقاؤں کے مفادات بھی ہیں۔ جنرل صاحب نے ایک دفعہ بھی یہ نہیں کہا کہ وہ غریبوں کیلیے اگلے پانچ سال کیلیے صدر رہنا چاہتے ہیں تاکہ مہنگائی پر قابو پا سکیں۔ جنرل صاحب جو پہلے کہا کرتے تھے کہ بینظیر لٹیری ہے اور وہ اسے واپس نہیں آنے دیں گے اب اپنی صدارت بچانے کیلیے لٹیروں سے بھی مذاکرات کرنےميں شرم محسوس نہیں کررہے۔ جنرل صاحب چاہتے ہیں کہ میاں برادران ملک میں واپس نہ آئیں اور اس کوشش میں وہ اپنے اٹارنی جنرل کو عمرہ بھی کراچکے ہیں۔ ہوسکتا ہے وہ نواز شریف کو سپریم کورٹ کی اجازت کے باوجود یا تو ملک میں آنے ہی نہ دیں یا پھر پکڑ کر اندر کردیں۔ دونوں صورتوں میں وہ اپنا ہی نقصان کریں گے کیونکہ اب حالات بدل چکے ہیں۔

نواز شریف – یہ مہرہ جو اپنی جان بچانے کیلیے اپنا سب کچھ تیاگ کر باہر بھاگ گیا تھا اب واپسی کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ اس مہرے کا سارا زور گو مشرف گو پر ہے۔ ان لوگوں نے اپنے پچھلے دو ادوار میں بینظیر کی طرح جو دولٹ لوٹی اور جس کا کچھ حصہ یہ لوگ ایک ڈیل کے تحت ملک کو واپس کرگئے تھے اسی کے ازالے کیلیے دوبارہ اقتدار میں آنا چاہتے ہیں۔ اس کوشش میں وہ اپنی جماعت سے بھاگے ہوئے لوٹوں کو بھی دوبارہ اپنے غسل خانے میں رکھنے کو تیار ہوں گے۔ سیاستدان ایک ایسی چیز ہے جو اس دشمن کو بھی معاف کردیتا ہے جس نے اسے بھرے بازار میں ننگا کیا ہو۔ میاں برادران بھی وقت آنے پر شیخ رشید جیسے لیڈروں کو دوبارہ سینے سے لگا سکتےہیں۔

فضل الرحمان – اس مہرے نے ایل ایف او پاس کراکے دوصوبوں کی حکومت حاصل کی اور حزب اختلاف کی بے ضرر سیٹ پر بھی براجمان ہوگیا۔ اب بھی یہ مہرہ چاہتا ہے کہ جنرل مشرف اقتدار میں رہیں تاکہ اس کی دونوں صوبوں کی حکومت قائم رہے۔ اسے اس بات کی فکر نہیں ہے کہ ملک میں اسلامی نظام نافذ ہوتا ہے کہ نہیں۔ یہ چاہتا ہے کہ اقتدار کے مزے لوٹتا رہے چاہے اسکیلیے اپنے قول و فعل سے ہی کیوں نہ پھرنا پڑے۔

چوہدری برادران – ان مہروں نے وردی کی آڑ میں سات سال حکومت کےمزے لوٹے ہیں اور اب حکومت چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔ اسی لیے جمہوری سیاستدان ہوتے ہوئے بھی یہ چاہتے ہیں کہ جنرل مشرف ہمیشہ وردی میں رہیں۔ یہ مہرے اس لحاظ سے سیانے ہیں کہ خطرے کی بو سونگھ کر پہلے ہی بوریا بستر لپیٹنا شروع کردیتے ہیں۔ اس کھیل میں جنرل مشرف کے بعد سب سے زیادہ مفاد ان مہروں کا داؤ پر لگا ہوا ہے۔ ایک طرف اگر جنرل مشرف کی پی پی پی سے ڈیل ان کیلیے زہر قاتل ہے تو دوسری طرف میاں برادران کی واپسی خطرناک ہے۔ یہ وہی چوہدری ہیں جنہوں نے میاں برادران سے سب سے پہلے بیوفائی کی۔ وقت آنے پر یہ بھی اپنی انا کو پس پشت ڈال کر میاں برادران کیساتھ دوبارہ ملنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔

الطاف بھائی – یہ مہرہ آج کل سیاسی بساط سے آؤٹ ہے مگر جانتا ہے کہ اگلے کھیل میں اسے نظر انداز کرنا ناممکن ہوگا اور کسی بھی پارٹی کو حکومت بنانے کیلیے اس کی ضرورت پڑے گی۔ اپنی اہمیت کا احساس دلانے کیلیے یہ یہاں تک کہ چکے ہیں کہ سارے لوگ بینظیر اور نواز شریف کی واپسی کی بات کرتے ہیں مگر الطاف بھائی کی نہیں۔ کہتے ہیں کہ اس دفعہ ایم کیو ایم زیادہ سیٹین نہیں جیت سکے گی مگر ہمیں یقین نہیں آتا۔

ان مہروں کے علاوے باقی لوگ صرف پیادے ہیں۔ ان میں سب سے بے ضرر پیادہ جناب شوکت عزیز ہیں۔ وہ وزیر اعظم رہتے ہیں تو بھی مزے میں ہیں اگر واپس امریکہ چلے جاتے ہیں تو بھی مزے میں ہیں۔ شیخ رشید، ڈاکٹر شیر افگن، پیٹریاٹ والے، جمالی، اعجاز الحق، درانی، وصی ظفر وغیرہ ایسے مہرے ہیں جو ہمیشہ حکومت میں شامل رہیں گے اور عین وقت پر ایسی چال چلیں گے کہ بادشاہ بھی حیران پریشان رہ جائے گا۔