آج کل کے دور میں معاشرے میں تبدیلی لانا کسی فرد واحد کے بس کی بات نہیں رہی۔ دنیا سمٹ کر ایک گلوبل گاؤں بن چکی ہے اور میڈیا معاشرے کے اکھاڑ پچھاڑ میں بہت بڑا کردار ادا کررہاہے۔ میڈیا پر چونکہ حکومت کا کنٹرول ہوتا ہے اسلیے حکومتی پلاننگ معاشرے کو سیدھا یا الٹا رستہ دکھانے کا سبب بنتی ہے۔ جب مقامی حکومت بین الاقوامی سپر پاور کے طابع ہو تو پھر سپر پاور کے ہاتھ میں ہر علاقے کے معاشرے کی لگام ہوتی ہے وہ جدھر چاہے معاشرے کے کردار کا رخ موڑ دے۔ ابھی تازہ تازہ سروے میں پاکستانی عوام کی زیادہ تعداد ٹی وی سے معلومات حاصل کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی معاشرہ اب جو بھی کلچر ٹی وی پر دیکھ رہا ہے وہی اپناتا جارہا ہے۔

مانا کہ پاکستانی حکومت ایک سپر پاور کے طابع ہے مگر ہم امید کرتے ہیں کہ اگر اس کے اندر ذرہ برابر بھی اسلامی روح باقی ہے تو وہ معاشرے کو اسلامی سانچے میں ڈھالے رکھنے کا فریضہ ادا کرے گی۔ یہ حکومتیں ہی تھیں جنہوں نے معاشرے کو اسلامی یا سیکولر رنگ دیا۔ بھٹو دور میں رمضان کے مہینے میں ہوٹل کھلے رہتے تھے۔ جنرل ضیاء نے رمضان میں ہوٹلوں کو بند کردیا۔ پھر بینظیر اور نواز شریف نے بھی رمضان کے تقدس کا کم ہی خيال رکھا۔ موجودہ حکومت نے چونکہ روشن خیالی اور اعتدال پسندی کا ٹھیکہ لے رکھا ہے اسلیے اس کے دور میں اسلامی اقدار کو خوب پامال کیا جارہا ہے اور ہر طرح سے یہی کوشش ہورہی ہے کہ کسی طرح سے پاکستانی مسلمانوں کے دلوں سے اسلام کی روح نکال دی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ رمضان کے مہینے میں کھیل جاری رہتے ہیں، ہمارے حکمران کم ہی تراویح پڑھتے نظر آتے ہیں، ہوٹل والے سرعام کھانا کھلا رہے ہوتے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ بچے کھچے مسلمانوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلیے حکمران رمضان کے مہینے میں عمرہ کرنا نہیں بھولتے۔

آئیں ہم انفرادی طورپر کوشش کريں کہ ہم لوگ اسلام کے بنیادی ارکان کی پاسداری کرتے رہیں۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں اسلام کے پانچ بنیادی ارکان ہیں، کلمہ، نماز، روزہ، حج اور ذکٰوة۔ روزے کے بارے میں خدا کا فرمان ہے ” روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا”۔ یعنی روزہ اگر آپ نے رکھا ہے یا نہیں رکھا یہ آپ جانتے ہیں یا آپ کا خدا جب تک کہ آپ خود اپنا راز افشاء نہ کردیں۔ روزے کے روحانی فائدے تو ہیں ہی،  اس کے دنیاوی فائدے بھی بہت ہیں۔

یہ خدا کی بہت بڑی نعمت ہے کہ اس نے ہمیں روزے رکھنے کا دوبارہ موقع دیا ہے تاکہ ہم اس کے صدقے بہت سارا ثواب کما سکیں۔ اگر کہیں اچھی ڈیل لگی ہو تو ہم جھٹ سے وہ چیز خرید لیتے ہیں۔ روزوں کی ڈیل یہ ہے کہ آپ کی نیکیوں کا ثواب سات سو گناہ بڑھ جاتا ہے اور شب قدر کی رات تو ثواب 83 سال کی عبادت  سے بھی زیادہ  ثواب ہوتا ہے۔ اس طرح کی ڈیل شاذونادر ہی کوئی چھوڑے گا۔

رمضان کے بارے میں ایک دو اچھی باتیں ہم نے پچھلے جمعہ میں سیکھیں۔ امام صاحب نے فرمایا کہ ہم اکثر سنتے ہیں ” وزن گھٹاؤ، عمر بڑھاؤ”۔ لوگ وزن کم کرنے کیلیے وقت، کوشش اور  ہزاروں روپے خرچ کرتے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی رحمت ہے کہ ہم روزے رکھ کر جہاں ثواب کماسکتے ہیں وہیں اپنا وزن بھی گھٹا سکتے ہیں۔ اس سے بڑی ڈیل آپ کو کہیں نہیں ملے گی۔

ایک اور بات امام صاحب نے یہ کہی کہ ہم لوگ ذاتی ترقی کیلیے پلاننگ کرتے ہیں اور یہ پلاننگ رمضان کے مہینے سے زیادہ کسی اور مہینے میں نہیں ہوسکتی۔ ہم رمضان میں کیا حاصل کرنے جارہے ہیں؟ ہم قرآن، حدیث، تفسیر اور قرات کا علم حاصل کرسکتے ہیں۔ ہم دن میں صرف ایک گھنٹہ، ایک آیت فی دن یا ایک صفحہ بمعہ ترجمہ فی دن یا ایک رکوع فی دن تلاوت کی پلاننگ کرسکتے ہیں۔ اس طرح اگر آپ پلان سے پیچھے سرکنے لگیں گے تو آپ اس کو واپس ٹریک پر لانے کے قابل ہوں گے۔ اس طرح آپ اپنی زندگی میں ڈسپلن پیدا کرسکتے ہیں جو انسانی ترقی کیلیے بہت بڑا ہتھیار ہے۔

امید ہے ہم سب لوگ اس بابرکت مہینے میں اپنے احباب کو نہ صرف دعاؤں میں یاد رکھیں گے بلکہ ان کی مدد کرنے میں بھی کنجوسی نہیں دکھائیں گے۔ جب بھی آپ خیرات کریں تو اپنے تمام احباب کی طرف سے کریں۔  اس طرح جہاں انہیں بھی ثواب ہوگا وہاں آپ کا حصہ بھی کم نہیں ہوگا۔

خدا ہمیں اپنے دین کے بنیادی ارکان پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور رمضان کے مہینے کو ہمارے لیے برکتوں کا مہینہ ثابت کرے۔