پچھلے پاکستان کے ٹور پر ہماری ملاقات ہمارے ایک دوست کے چھوٹے بھائی سے ہوئی تھی اور ہم نے اپنی پوسٹ میں ان کے حسن سلوک کا ذکر بھی کیا تھا۔ اس وقت انہوں نے ہمیں دھوکہ دیا تھا مگر ان کے دوست اور بڑے بھائی نے یقین کرنے سے انکار کردیا تھا اور کہا تھا کہ آشفتہ ایسا نہیں کرسکتا۔

آشفتہ ہمارے سامنے بڑا ہوا اور ہم نے کچھ عرصہ اس کے ساتھ کرکٹ بھی کھیلی۔ پھر اس نے میٹرک کرنے کے بعد والد کی آڑہت کی دکان پر بیٹھنا شروع کردیا۔ اس کےوالد حنیف صاحب چاولوں کا کاروبار کرتے تھے اور عاشق مزاج بہت تھے۔ حنیف صاحب کی بیوی میں خوبصورتی کی کوئی کمی نہ تھی اور اسی وجہ سے ان کے سات بچوں میں سے صرف ایک لڑکے کا رنگ گندمی تھا باقی سب گورے چٹے کشمیری تھے۔

حنیف صاحب کا محلے کی لیڈی ہیلتھ وزیٹر کے ساتھ معاشقہ چل رہا تھا اور ایک دو دفعہ ہم نے بھی انہیں اس عورت کیساتھ سڑک پر چلتے اور باتیں کرتے دیکھا تھا۔ کرنا خدا کا کیا ہوا، حنیف صاحب چاول سمگل کررہے تھے کہ ٹرک الٹ گیا اور ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ انہوں نے بہت کوشش کی مگر ان کی ٹانگ ٹھیک نہ ہوئی اور وہ چلنے پھرنے سے معزول ہوگئے۔ جب ان کی محبوبہ نے بیساکھیاں ان کی بغلوں میں دیکھیں تو اس نے ان سے منہ موڑ لیا۔ یہ ان کی بیوی اور اولاد ہی تھی جنہوں نے ان کے مرنے تک ان کی پیروں کی طرح خدمت کی۔ آشفتہ جو گندمی رنگ کا تھا نے والد صاحب کو دکان پر لے کر جانا اور لانا شروع کردیا۔ اسی دوران اس نے آڑہت کے سارے رموز سیکھ لیے اور والد کے مرنے کے بعد دکان سنبھال لی۔ آشفتہ کی شادی ہوئی اور خدا نے اسے تین بیٹیوں اور دو بیٹوں کا باپ بنا دیا۔ اس وقت اس کی بیٹیاں بھی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ رہی ہیں۔

ایک ماہ قبل ہم نے سنا کہ آشفتہ اپنی بیوی سے ناراض رہنے لگا ہے اور اپنے گھر کے ڈرائنگ روم میں الگ سوتا ہے۔ ان کا ڈرائنگ روم گھر سے الگ بنا ہوا ہے جس کا دروازہ سڑک کی طرف کھلتا ہے۔ لوگوں نے سنا  اور دیکھا کہ ایک لڑکی نے اس کی بیٹھک میں آنا جانا شروع کردیا ہے۔ اسی دوران پڑوسیوں نے ایک آدھ بار آدھی رات کو اسے شراب کی قے کرتے بھی دیکھا۔ جب اس کی ماں اور بیوی نے لڑکی کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگا کہ وہ تو جاتے جاتے اس کے ڈرائنگ روم میں لگے شیشے میں اپنے بال سیدھے کرجاتی ہے اور کچھ نہیں۔

دوماہ قبل اس کی بیوی یا تو خود ناراض ہوکر میکے چلی گئی یا اس نے خود اسے گھر سے نکال دیا اور بچے اپنے پاس رکھ لئے۔ اس کی بوڑھی ماں جو جوڑوں کے درد میں مبتلا ہے پانچ بچوں کی دیکھ بھال کرنے لگی۔ کسی نے اس کی بیوی کو گھر واپس لانے کی کوشش ہی نہ کی۔

اس ہفتے ہمارے دوست نے بتایا کہ آشفتہ اپنا کاروبار اور گھربار چھوڑ کر اس لڑکی کیساتھ یورپ بھاگ گیا ہے۔ یہ لڑکی پہلے دے دو دفعہ طلاق یافتہ ہے اور اس سے عمر میں پندرہ سال چھوٹی ہے۔ اب پتہ نہیں آشفتہ نے یورپ کا ویزہ کیسے لیااور وہ بھی اپنی محبوبہ کیساتھ۔ ہمیں تو شک ہے کہ وہ یورپ نہیں بھاگا بلکہ پاکستان میں ہی کہیں ادھر ادھر چھپا ہوا ہے۔ یورپ کا بہانہ اس نے اسلیے کیا ہوگا تاکہ دونوں کے گھر والے ان کا پیچھا نہ کرسکیں۔

آشفتہ کا بھائی جو فوج میں میجر ہے یہ خبر سن کر گھر آیا اور اس نےسب سے پہلا کام یہ کیا کہ اپن بھابی کو منا کر گھر لے آيا تاکہ وہ اپنے بچوں کساتھ رہ سکے اور ان کی دیکھ بھال کرسکے۔ اس کے بعد اس نے دکان کا انتظام بھی سنبھال لیا جو آشفتہ اپنے دوست کے حوالے کرگیا تھا۔

آشفتہ کی عقل پر حیرانگی ہوتی ہے کہ ایک آوارہ عورت کے عشق میں اپنا بسا بسایا گھر تباہ کرلیا۔ کاروبار الگ خراب ہوگا اور جگ ہنسائی جوہوگی اس کا کوئی توڑ نہیں۔ اپنی بیوی، بچوں، والدہ اور بہن بھائیوں کو اس نے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ اب اگر وہ واپس آبھی جائے تو اپنے خاندان کی عزت بحال نہیں کرسکے گا۔ مگر اس طرح کے لوگوں کو عزت کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ وہ واپس آۓ گا اور دوبارہ اپنے دھندے میں لگ جائے گا۔ نہ معاشرے میں اسے کوئی برا بھلا کہے گا اور نہ اس کو سزاملے گی بلکہ بیوی ساری عمر اس غم میں کڑھتی رہے گی۔

یہ سچ ہے کہ عشق آدمی کو اندھا کردیتا ہے اور عشق کے مرض میں مبتلا شخص اپنے محبوب کیلیے کچھ بھی کر گزرنے کی ہمت رکھتا ہے۔ جب عاشق اپنے محبوب سے یہ کہتا ہے کہ میں تمہارے لیے آسمان سے تارے بھی توڑ کر لاسکتا ہوں تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے جو اس کہانی میں چھپا ہوا ہے۔

 خدا ہمیں عقل سلیم عطا فرمائے تاکہ ہم کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے اس کے اچھے برے پہلوؤں کا خیال رکھ سکیں۔ آمین