آج کل بینظیر صاحبہ کرسی کیلیے اتنی بیتاب نظر آتی ہیں کہ وہ کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہیں۔ کرسی کیساتھ ساتھ انہیں اپنے خلاف کرپشن کے کیسوں کی بھی فکر ہے۔ اسی لیے انہوں نے جب سے عوام کی بجائے ایک سپر پاور کی آشیرباد کو کرسی کے حصول کا ذریعہ مان لیا ہے وہ اپنے آقاؤں کی خوشنودی کیلیے ایسے ایسے مطالبات پورے کرنے کیلیے سب سے بازی لے جانے کی کوشش کررہی ہیں جن کے متعلق سوچنا بھی ملک سے غداری تصور ہوگا۔

 اس دوڑ میں فی الحال ان کا مقابلہ جنرل مشرف کیساتھ ہے۔ اگر جنرل مشرف نے شمالی علاقوں میں بھرپور کاروائی سے ہاتھ روکا ہوا ہے تو بینظیر بھرپور کاروائی کرنے کیلیے تیار ہیں۔ اگر جنرل مشرف نے مدرسوں کو ڈھیل دے رکھی ہے تو بینظیر مدرسوں کیخلاف سخت ایکشن لینے کو بھی تیار ہیں۔ اگر جنرل مشرف نے ڈاکٹر قدیر خان کو صرف نظر بند کیا ہوا ہے تو بینظیر انہیں ایٹمی ایجینسی کے حوالے کرنے کیلیے تیار ہیں۔ اس صورتحال پر ایک قطعہ لکھا ہے۔ عرض کیا ہے

دیوانے بھٹوکی طرح اب نہ مرے گا

جنرل کے کھیت میں گھاس چرے گا

کردے گا قدیر خان بھی ان کے حوالے

کرسی کیلیے سالا کچھ بھی کرے گا

یعنی اب ہم سب کچھ کرنے کیلیے تیار ہیں صرف ہمیں اقتدار دے دو اور ہماری بلیک منی کو سفید کردو۔ اس وقت تو اگر کوئی بینظیر صاحبہ سے آصف ذرداری کی قربانی بھی مانگے تو وہ انہیں بھی قربان کرنے سے دریغ نہیں کریں گی۔

ہم یہ سب بھول چکے ہیں کہ ایک دن ہمیں مرنا بھی ہے اور خدا کے حضور پیش ہونا ہے۔ اس وقت کسی کو کوئی پرواہ نہیں ہے کہ تاریخ میں انہیں میر جعفر اور میر صادق کی طرح تو یاد نہیں کیا جائے گا۔ کسی کو یہ بھی پرواہ نہیں کہ کم از کم وہ تاریخ میں اپنا نام سنہری حروف میں چھوڑ جائے۔

 لگتا ہے بڑی گیم کھیلنے والوں کا اس بات پر یقین پکا ہے کہ آخرت واخرت جیسی کسی چیز کا وجود نہیں ہے اور جو دم انہوں نے اس دنیا میں جی لیا وہی سب کچھ ہے۔ اگر اقتدار کی رسہ کشي میں حصہ لینے والوں کو قیامت اور مرنے کے بعد دائمی زندگی پر یقین ہوتا تو وہ ضرور لوگوں کیلیے نیک کام کرجاتے۔

 حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ کہا کرتے تھے کہ ان کی حکومت میں اگر ایک کتا بھی بھوکا سویا تو ان سے اس کا بھی حساب مانگا جائے گا۔ مگر آج کے حکمران انسانوں کے بھوکا سونے کو کچھ نہیں سمجھتے۔

 دنیا میں صرف تھرڈ ورلڈ کے حکمران ایسے ہیں جو اپنے ہی عوام کیساتھ پرخلوص نہیں ہیں اور وہ کسی اور کے ایجینڈے پر عمل پیرا ہیں۔ وگرنہ دنیا میں کوئی بھی حکمران اپنے ہی عوام کی فلاح کو پس پشت ڈال کر زیادہ دیر تک حکومت نہیں کرسکتا۔

پتہ نہیں کب پاکستانی حکمرانوں میں تبدیلی آئے گی اور کب ان کی طاقت کا سرچشمہ عوام ہوں گے؟