دو گھنٹے قبل ہم پاکستان میں ایک دوست سے بات کررہے تھے کہ جیو اور آری ٹی وی بریکنگ نیوز چلائی “پاکستان میں 1973 کا قانون معطل کردیا اور چیف آف آرمی سٹاف نے نیا پی سی او جاری کرکے ایمرجنسی ڈکلیئر کردی”۔ اس طرح ہماری دو دن قبل والی تحریر “کیا کچھ برا ہونے والا ہے؟”سمیت تمام پرنٹ میڈیا کے خدشات کو حقیقت کا روپ دےmusharrafemergency.gif دیا گیا۔ ہم نے جب اپنے دوست کو یہ خبر سنائی تو وہ جان کر حیراں رہ گیا اور اس کا پہلا تبصرہ یہی تھا کہ دیکھ لو ہم اپنے ہی ملک کے حالات باہر کے لوگوں کی زبانی جان رہے ہیں۔ اس کے بعد جب اس نے ٹی وی لگایا تو سرکاری ٹی وی کے علاوہ تمام نجی ٹی وی کی نشریات بند کردی گئی تھیں۔ اس کیساتھ ہی پی ٹی اے نے تمام موبائیل کمپنیوں کو موبائل سروس معطل کرنے کا حکم دے دیا اور ایس ایم ایس سروس بھی معطل کردی گئی۔

اس کے بعد سے ہم جیو اور آری ٹی وی سے ملک کی بدلتی ہوئی صورتحال کو واچ کررہےہیں جبکہ اپنےملک پاکستان میں ذرائع ابلاغ کے تمام ذرائع پر پابندی لگادی گئی ہے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ انڈین اور انٹرنیشنل چینلز بند نہیں ہوئے اور لوگوں کو اپنے ملک کی خبریں دشمن ملک کے ٹی وی چینلز کے ذریعے دیکھنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔

دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو حکومت نے تو معطل کردیا ہے مگر وہ ابھی تک نہ صرف سپریم کورٹ کی عمارت میں موجود ہیں بلکہ انہوں نے دوسرے سات ججز کے ساتھ ملکر اس ایمرجینسی کو غیرقانونی قرار دیے دیا ہے۔

بقول حامد میر کے یہ اقدام حکومت کو اس وقت جلد بازی میں اٹھانا پڑا جب شاید چیف جسٹس کی ایک کال حکومت نے سن لی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ جنرل مشرف کے مقدمے میں آٹھ جج اس کیخلاف اور تین جج اس کے حق میں فیصلہ دیں گے۔ یہ گفتگو سننے کے بعد حکومت نے ایمرجنسی اور مارشل لا کے درمیان کی صورتحال پیدا کردی ہے۔ کیونکہ نہ تو اسمپلیوں کو معطل کیا گیا ہے اور نہ حکومتیں ختم کی گئی ہیں مگر عدلیہ اور میڈیا کی آزادی کو صلب کرلیا گیا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس اقدام کو کس طرح قانونی قرار دیتی ہے اور کون اس غیرقانونی اقدام میں حکومت کی حمایت کرکے اسے جواز فراہم کرتا ہے اور کون اپنے ذاتی مفادات کو داؤ پر لگا کر اس غیرقانونی اقدام کی مزاحمت کرتا ہے۔

اس وقت لگتا ہے کہ جنرل مشرف مسلم لیگ ق کی حمایت کے باوجود مشکل صورتحال سے دوچار ہوں گے۔ بقول حامد میر کے جنرل مشرف کے حامیوں نے جس طرح نو مارچ کو غلطی کی تھی اسی طرح اس دفعہ بھی غلطی کی ہے بلکہ بہت بڑی غلطی کی ہے اور اس دفعہ بھی جنرل مشرف ہی خسارے میں رہیں گے۔

ہمارے خیال میں ملک کی موجودہ صورتحال میں اگر عوام پہلے کی طرح خاموش رہے اور بینظیر سمیت سیاستدانوں نے مصلحت کی راہ اپنائی تو جنرل مشرف جیت جائیں گے۔ دوسری طرف اگر عوام خود یا سیاستدانوں کے کہنے پر سڑکوں پر نکل آئے تو پھر جنرل مشرف ہار جائیں گے۔ ویسے ہمارے خیال میں پہلے والی صورت بنتی نظر آتی ہے یعنی سب لوگ تماشہ دیکھیں گے اور لیڈر اپنے اپنے مفادات حاصل کرنے کے چکر میں جنرل مشرف کے اقتدار کو دوام بخشیں گے۔

آج تک فوجی حکومتوں میں شامل ہونے والے لیڈران فوج کو اقتدار میں لانے کا ذمہ دار سیاستدانوں کو ہی قرار دیتے رہے ہیں مگر فوج کو اقتدار میں رکھنے کے جرم میں اپنے آپ کو مورد الزام نہیں ٹھراتے۔ اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا اگر سیاستدان فوجی حکومتون میں شامل نہ ہوتے اور مارشل لا کی چھتری تلے ذاتی مفادات نہ سمیٹتے تو پاکستان میں فوج کا حکومت کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوجاتا۔