اس وقت عوام حکومت اور اپوزیشن سے اس قدر مایوس ہو چکے ہیں کہ وہ اپنے بنیادی حقوق معطل ہونے پر بھی سراپا احتجاج بن کر باہر نہیں نکلے۔ ہرکوئی دور سے اس طرح تماشا دیکھ رہا ہے جیسے سڑک پر بندر کا تماشا ہو رہا ہو۔ سپریم کورٹ پر شب خون مارنے پر احتجاج لاعلمی کی انتہا یہ ہے کہ عوام کو معلوم ہی نہیں کہ آئین میں ان کے کیا حقوق ہیں اور اگر یہ حقوق ان سے چھین لئے جائیں تو ان کیلیے کتنا نقصان دہ ہے۔

سیاسی پارٹیوں نے بھی عوام کی آگہی کیلیے کوئی عملی اقدام نہیں کیا اور نہ ہی سیاسی کارکنوں کی اس طرح تربیت کی ہے کہ وہ گلی محلے میں نکل کر لوگوں کو ان کے حقوق کی معطلی سے آگاہ کرسکیں۔

ان حالات میں جب لوگ تشدد کے ڈر سے باہر نکلنے سے انکار کردیں تو سیاسی سرپر پٹی باندھ کر احتجاجپارٹیوں کو چاہیے کہ وہ ایسے طریقے اپنائیں جن سے پرامن احتجاج کیا جاسکے۔ اسطرح عوام ریاستی ظلم و جبر سے بھی بچ جائیں گے اور حکامرانوں کو یہ بھی بتا سکیں گے کہ وہ ان کے غیرقانونی اقدامات کی توثیق نہیں کرتے۔

جس طرح جماعت اسلامی نے کہا ہے کہ لوگ اپنے گھروں پر سیاہ جھنڈے لہرائیں۔ یہ ایک اچھا مگر مہنگا طریقہ ہے۔ عوام جو دو وقت کی روٹی کھانے سے معذور ہیں وہ نہ تو جھنڈے کا کپڑا خرید پائیں گے اور نہ اسے لٹکانے کیلیے ڈنڈا۔ اگر سیاسی جماعتیں ملکر جھنڈوں کا انتظام کرسکیں تو احتجاج کا یہ طریقہ کامیاب ہوسکتا ہے۔

سیاہ پٹیاں باندھنے کا رواج سیاسی پارٹیاں ڈال سکتی ہیں اور یہ پہلے طریقے سے سستا اور آسان ہے۔ بس سیاسی کارکنوں کو گلی بازاروں میں کھڑے ہو کر لوگوں میں سیاہ پٹیاں بانٹنی ہوں گی اور اگر وہ خود ان کے بازوؤں پر باندھ سکیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔

سیاہ پٹیوں کی بجائے سیاہ ربن کا بھی بندوبست کیا جاسکتا ہے اور اگر یہ ربن معمولی قیمت پر بازار میں دستیاب ہوں تو لوگ انہیں اپنے سینے پر سجا کر احتجاج ریکارڈ کراسکتے ہیں۔ یہ طریقہ لوگوں کی زیبائش میں بھی اضافہ کرسکتا ہے۔

ہاں”جمہوریت بحال کرو” کے سٹکر بنا کر بھی گاڑی مالکان کو دیے یا بیچے جاسکتے ہیں۔ وہ یہ سٹکر گاڑی کے اندرribbonsupporttroops.JPG کھڑکی یا پیچھے والے شیشے پر چپکا سکتے ہیں۔ امریکہ میں اس طرح کے سٹکر عراق جنگ کے موقع پر فوجیوں کی سپورٹ کیلیے استعمال ہوئے اور خوب بکے تھے۔

علامتی بھوک ہڑتال کا طریقہ عوامی طریقہ نہیں ہے کیونکہ اس میں عوام براہ راست شریک نہیں ہوتے اور لیڈر اس وقت یا تو قید ہیں یا پھر حکومت کی بی ٹیم میں شامل ہونے کی وجہ سے متحرک نہیں ہے اسلیے یہ طریقہ تب تک قابل عمل نہیں ہے جب تک عوامی لیڈر میدان میں نہیں اتریں گے۔

ایک مہنگا مگر ان حالات ميں موثر طریقہ یہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں نذرنیاز کی طرز پر دیگیں پکائیں اور ان لوگوں میں بانٹیں جو حکومت کیخلاف پیٹیشن پر دستخط کریں یا سیدھے طریقے سے یہ کہ دیا جائے کہ جو حکومت کیخلاف ہے وہ آکر اپنا کھانا لے جائے۔ لیکن ان دیگوں کیلیے رقم کہاں سے آئے گی یہ سوچنا سیاسی جماعتوں کا کام ہے ہم نے تو مشورہ دے دیا ہے۔

ایک اور طریقہ یہ ہے کہ سیاسی کارکن چوکوں میں بیلٹ بکس لے کر کھڑے ہوجائیں اور لوگوں سے ایمرجنسی کے نفاذ پر رائے لیں اور بعد میں بتائیں کہ کتنے فیصد لوگ بنیادی حقوق کی معطلی کے خلاف ہیں اور کتنے حق میں۔ یہ طریقہ اس سے پہلے وکلاء بابائے ایٹم بم ڈاکٹر قدیر کیلیے آزما چکے ہیں۔ اس وقت کافی تعداد میں لوگوں نے ڈاکٹر قدیر کو جنرل مشرف کیخلاف ووٹ دیے تھے۔

اس وقت ملک میں چھ کروڑ سے زیادہ موبائل فون ہیں اور ان کی تعدار اگلے پانچ سالوں میں سولہ کروڑ ہونے والی ہے۔ ہم موبائل فون سے بھی اپنا احتجاج ریکارڈ کراسکتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں میڈیا سے ملکر عوام کو ایس ایم ایس بھیجنے پر اکسائیں۔ یعنی عوام سے بنیادی حقوق کی معطلی پر مخالفت یا حق میں رائے لی جائے اور پھر اس کے نتائج روزانہ کی بنیاد پر میڈیا پر دکھائے جائیں۔ یہ طریقہ بھارتی موسیقی کے مقابلوں یعنی انڈین آئڈل اور سارے گاما پا چیلنج کیلیے بہت کامیاب رہا ہے۔ فائنل میں لوگوں نے کروڑوں کی تعداد میں ایس ایم ایس بھیجے تھے۔ اس طریقے میں اگر ایس ایم ایس بھیجنے پر فیس بھی لگا دی جائے تو بھی ہمیں امید ہے لوگ ضرور حصہ لیں گے۔ اس فیس سے میڈیا اپنے اخراجات پورے کرلے گا اور جو بچے وہ بنیادی حقوق کی بحالی کیلیے خرچ کیا جائے۔

ایک بہت پرانا مگر ہمت والا پرامن طریقہ جیل بھرو تحریک ہوتا تھا جو کئی مواقع پر بہت کامیاب رہا۔ مگر اس وقت چونکہ سیاسی جماعتوں کے زیادہ تر کارکن اپنیوکلا گرفتاری پیش کررہے ہیں جماعتوں کیلیے اس طرح کی تکالیف برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے اسلیے اسے فی الوقت بھول ہی جائیں۔ ہاں اگر کوئی جماعت چاہے تو جیل بھرو تحریک بھی شروع کرسکتی ہے۔ ابھی اسی ہفتے ایک جگہ پر وکلاء نے بھی اسی مقصد کیلیے لائن میں کھڑے ہو کر گرفتاریاں دی ہیں۔

ان تمام احتجاجی طریقوں کیلیے جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم جیسے تربیت یافتہ کارکنوں کی ضرورت ہے جو اس وقت سیاسی پارٹیوں کی غلط حکمت عملیوں کی وجہ سے موجود نہیں ہیں۔ جماعت اسلامی کے پاس صرف اتنے ہی کارکن موجود ہیں جو کسی تعلیمی ادارے میں ڈسکو کنسرٹ کو روک سکیں ان کے بس میں ہر شہر اور ہر گلی میں اس طرح کے احتجاجوں کیلے کارکنوں کی کھیپ موجود نہیں ہے۔ ایم کیو ایم ویسے ہی بنیادی حقوق کی معطلی کےجرم میں شریک ہے۔

عوام تو تب سڑکوں پر نکلیں گےجس دن ان کے پیٹ خالی ہوں گے یا پھر کوئی بہادر لیڈر ان کے حقوق کی بحالی کیلیے ان کا اعتماد حاصل کرلے گا۔ تب تک اوپر دیے گئے طریقوں میں سے کسی ایک پر عمل کر کے سیاسی پارٹیاں اپنا احتجاج ریکارڈ کراسکتی ہیں۔ اب ان طریقوں سے احتجاج کرنے کیلیے نظم و ضبط کیسے پیدا ہوگا یہ عوامی سیاستدانوں کیلیے سوچنے والی بات ہے۔