ایک ہندوستانی مسلمان نے چاہے اپنے کاروبای کی مشہوری کیلیے ہی سہی مگر پاکستان کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کر کے ثابت کیا ہے کہ اب بھی  ہندوستانی مسلمان پاکستان کیلیے ہمدردی رکھتے ہیں۔ آئیں پہلے خط پڑھیں پھر اس پر تبصرہ کریں گے۔

بقلم تنویر عالم قاسمی
پاکستان میں ایمرجنسی کے اسباب . . . . . کیا یہ صحیح ہیں ؟ ؟ ؟

دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کی بنیاد اسلام اور مسلمانوں کے نام پر رکھی گئی ہے، اس کا اصلی نام “ اسلامی جمہویہ پاکستان ،،ہے اس کی بنیاد میں ان بے گناہ لاکھوں مسلمانوں کا خون شامل ہے جو تقسیم ہند کے وقت فرقہ وارانہ فسادات کا شکار ہوے تھے۔ ہماری گذشتہ نسل نے اپنے جگر کے ٹکڑوں ، گھر اور اپنے اثاثوں کے درمیان ایک لکیر کھینچتے ہوے خاموشی سے دیکھی تھی ، اپنے ہی جسم کو بوٹیوں میں بٹنے کی تکلیف برداشت کی سرحد کے آر پار تقسیم کا خونی منظر اسلئے دیکھا کیوں کہ وہ سمجھتے کہ پاکستان کی شکل میں ایک ایسا ملک وجود میں آنے والا ہے جو اسلامی قوانین ، شریعت محمدی ، اور آئین خدا وندی کا نفاذ کرکے دنیا کے سامنے ایک ایسی مملکت کا خاکہ پیش کریگاجس میں صرف اور صرف اسلام ہوگا، اسلام کی جھلک ہوگی ، ساری دنیا میں ایک انمول نمونہ بنے گا اور اسلام کی ایک نئی اور خوشنما تاریخ مرتب ہوگی۔ انہیں امیدوں کے سہارے اپنی بسی بسائی دنیا اپنے ہی ہاتھوں سے اجاڑ کر اپنے خوابیدہ وطن پاکستان پہنچ گئے، وہ یہ سوچ رہے تھے کہ اب ہمیشہ کی فرقہ وارانہ کشیدگی ،آپسی اختلافات اور خون خرابے سے نجات مل جائے گی لیکن پا کستا ن کی 60 سالہ تاریخ شاہد ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔
پا کستان پہنچنے پر معاملہ اس کے برعکس تھا اب وہ ایک مسلمان ہی نہیں تھے بلکہ کہیں وہ بنگالی مسلم تھے ،کہیں سندھی ،کہیں پنجابی ،کہیں پختون ،اور کہیں مہاجر۔
ہندوستان سے زخم کھاکرجانے والوں کا زخم مندمل ہونے کی بجائے اور زیادہ تازہ ہوگیا اسی زخم کو ناسور بنایا پاکستان کی مطلق العنان فوج اور وہاں کی کرسی کے بھوکے سیاسی آمروں نے، جس کی وجہ سے آج تک وہاں کی عوام نے نہ تو اسلامی نظام ہی دیکھا اور نہ ہی اصلی جمہوریت کا کھل کر مزہ لیا، فوجی جرنلوں اور سیاسی آمروں نے پاکستان کی عوام کو ہمیشہ اسلام اور اسلامی جمہوریت کے نام پرگمراہ کیا،فوج ہو یا عوامی رہنما سب نے ہی پاکستان کو اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لئے استعمال کیا اور بعد میں چبائی ہوی ہڈی کی طرح پھینک دیا،اسی کی ایک جھلک گذشتہ چند دنوں سے جنرل پرویز مشرف کی طرف سے لگائی گئی ایمرجنسی کا اعلان ہے۔
بہر حال یہ تو پاکستان کا داخلی معاملہ ہے جس پر ہمیں کچھ کہنے کی زیادہ گنجائش نہیں ، لیکن سردست پرویزمشرف کے اس فیصلہ سے مسلمانوں کو جو تکلیف پہنچی ہے وہ یہ ہے کہ مشرف نے اپنے حکم اورفیصلہ میں نفاذ ایمرجنسی کے اسباب میں سے ایک اہم اور خاص سبب“ اسلامی دہشت گردی “بتایا ہے، اس طرح مشرف نے اسلام مخالف قوتوں اور خصوصا امریکہ اور ہندوستان کی بدنام زمانہ گروہوں R.S.S، بجرنگ دل اور شیوسینکوں جیسی مکروہ ذہن رکھنے والی گروہوں کو جو پہلے ہی سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بر سر پیکار ہیں ایک قوی سند اور دلیل پیش فراہم کردیا۔
اس وقت جو تشویش ناک امر ہے وہ یہ ہے کہ اسلام مخالف قوتیں جو ہمیشہ سے دہشت گردی کو اسلام کے ساتھ جوڑنے کی ناپاک کوششیں کررہی ہیں ، ایک مضبوط مسلم ملک کے سر براہ کے ذریعہ دہشت گردی کے خلاف لئے گئے فیصلہ میں “ اسلامی دہشت گردی “ کے الفاظ استعمال کرانے میں یہ اسلام مخالف طاقتیں کامیاب ہوگئیں اور گویا ان طاقتوں نے ایک طرح سے مسلم ملک کے حکمراں کی باضابطہ اپنے نظریہ کی حمایت قانونی اور دستوری طورپرحاصل کرلی ، پاکستان کے صدر کیزبان و عمل اس بات کی نشاندہی کرتا ھے کہ جنرل پرویز مشرف نظریاتی اورعملی طورپرامریکہ کے دام فریب میں گرفتار ہوگیا ہے۔
پرویز مشرف نے اپنے فیصلہ میں دہشت گردی کو اسلام کے ساتھ جوڑ کر ایک تاریخی غلطی کی ہے جس کے لئے پرویزمشرف کو مسلمانان عالم سے معافی مانگنی چاہئے ، دہشت گردی کے ساتھ “ اسلام“ کے لفظ کا استعمال استعمال کرکے پرویز مشرف نے مسلمانان عالم کو سخت ایذا پہنچائی ہے اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں تو ان کا یہ عمل مسلمانان عالم کے نزدیک ہمیشہ اسلام مخالف تصور کیا جاتا رہیگا اور ان کی تاریخ حیات میں یہ فیصلہ ایسے سیاہ فیصلہ کی شکل میں درج ہوگا جس کی تلافی ممکن نہیں ہوگی۔
tanveeralamqasmi@yahoo.co.in
Address: www.inikah.com
Address:# 42 , Nandi Durga Road ,Bangalore-46 India
Mob:919945631954

ایک بات تو طے ہے کہ ہم پاکستانی مسلمان جیسے بھی ہیں ہندوستانی مسلمانوں سے بہتر زندگی گزار کر ثابت کررہے ہیں کہ ایک علیحدہ وطن کی تحریک غلط نہیں تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ پاکستانی مسلمان بھی دوسرے مسلمان ملکوں کی طرح اپنے ہی حکمرانوں کے ستائے ہوئے ہیں جو غیروں کے مفادات کی خاطر اپنے عوام کا عرصہء حیات تنگ کیے ہوئے ہیں۔ لیکن جس کمپرسی میں ہندوستانی مسلمان زندگی گزار رہے ہیں اور جس طرح ہندو معاشرے میں ان کے حقوق غصب ہو رہے ہیں ایسا مسلمان ملکوں میں نہیں ہے۔ ہمیں ایک مشہور ہندوستانی مسلمان شاعر نے بتایا تھا کہ ہندوستانی مسلمان اس وقت ہندوؤں کے گلی محلوں کی صفائی اور کوڑا کرکٹ اٹھانے کے علاوہ کچھ نہیں کرپارہے۔ انہیں اعليٰ ملازمتوں کے حصول میں ڈسکریمینیشن کا سامنا ہے۔ وہ اپنے تناسب کے حساب سے بہت کم فوج، پولیس اور سرکاری محکموں میں ملازم ہیں۔ دوسری طرف ہندوستانی مسلمان تعلیم کی طرف توجہ نہ دینے کی وجہ سے بھی پسماندہ ہیں۔

 ابھی حال ہی میں گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو جس طرح مسلمانوں کے قتل عام کا ذمہ دار ٹھرایا ہے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہندو مسلمانوں کیساتھ ملکر رہنا ہی نہیں چاہتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ یا تو مسلمان ہندو مذہب اختیار کرلیں یا ہندوستان چھوڑ کر چلے جائیں۔

 ہندوستانی فلموں میں بھی مسلمانوں کی خوب تذلیل کی جارہی ہے۔ ان کے کردار زیادہ تر بدمعاشوں، ڈرگ مافیا اور چور اچکوں والے ہوتے ہیں۔ جتنی بھی طوائفوں اور کلب گرلز کے کردار فلموں میں ہوتے ہیں وہ ب مسلمان ہوتی ہیں۔ فلموں میں ہمیشہ ہندو لڑکے کو مسلمان لڑکی سے عشق کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے اور اس طرح ہر لحاظ سے مسلمانوں کو نیچا دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ تو خدا کا احسان ہے جس نے اسلام کو ہندوستان میں ابھی تک زندہ رکھا ہوا ہے۔  ہندوؤں کے بس میں ہوتا تو اب تک سارے مسلمان ہندو بن چکے ہوتے۔

 ہماری دعا ہے کہ خدا ایک دن تمام مسلمانوں کو آزادی نصیب فرمائے اور انہیں غیرمسلموں کے مظالم سے محفوظ رکھے۔