حلف زدہ سپریم کورٹ نے آج ایک جنرل کے ملکی صدارت کی اہلیت کیخلاف دائر تین درخواستیں خارج کردیں۔ ہمارے خیال ميں جسٹس وجیہ الدین اور ڈاکٹرانوارالحق نے درخواستوں کی پیروی نہ کرکے غلط حکمت عملی اپنائی۔ یہ درست ہے کہ جسٹس وجیہ الدین نے نئے حلف زدہ ججوں کو ماننے سے انکار کیا مگر یہ حکمت عملی اس شخص کو اپنانی چاہیے تھی جس کو اتنی عوامی حمایت حاصل ہوتی کہ وہ سپریم کورٹ کو مجبور کردیتا کہ وہ جنرل صاحب کو صدارت کے الیکشن کیلیے نااہل قرار دے دیں۔ اگر ایسا نہیں تھا تو پھر حلف زدہ ججوں کو فری ہینڈ نہیں دینا چاہیے تھا اور انہیں اس حد تک لے جاتے جہاں وہ مجبوراً آئین سے ماورا فیصلہ کرتے جو ان کے ضمیر کو صدا کیلیے ڈستا رہتا۔ یہ حکمت عملی ویسے ہی ہے جیسے جنرل ضیائی اسمبلیوں کے الیکشن کا سیاسی پارٹیوں نے بائیکاٹ کرکے غلط فیصلہ کیا تھا اور بعد میں پچھتاتی رہی تھیں۔

پی پی پی کے امین فہیم نے کیوں درخواست واپس لی اس کی وجہ ابھی تک سامنے نہیں آئی مگر ہمیں یہ نورا کشتی کا ہی ایک راؤنڈ لگتا ہے۔  امین فہیم کی چال سے ہمارا شک پختہ ہوتا جارہا ہے کہ پی پی پی کی جنرل مشرف کی مخالفت ایک گیم پلان کا حصہ ہے ۔ پی پی پی جو الیکشں کے بائیکاٹ کے آپشن پر بھی غور کررہی ہے آخری وقت میں انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کردیے گی اور مشرف مخالف ووٹ بانٹ کر مسلم لیگ ق کو سیٹیں جیتنے کا موقع دینے کیساتھ ساتھ  خود بھی اتنی سیٹیں جیت لے گی کہ دونوں پارٹیاں مل کر جنرل مشرف کی 52 بی کی چھتری کے نیچے اگلے پانچ سال کیلیے حکومت بنا لیں۔

اب صرف ایک درخواست میدان میں رہ گئی ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ حلف زدہ جج کس طرح اس کو نپٹاتے ہیں۔

یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس دفعہ جسٹس وجیہ سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو یقین ہو کہ وہ جنرل صاحب کو عوامی حمایت کی بنا پر زیادہ دیر تک صدارت کی کرسی پر نہیں بیٹھنے دیں گے۔ مگر موجودہ حالات اس بات کی گواہی نہیں دیتے اور لگتا یہی ہے کہ جنرل مشرف اگلے پانچ سال کیلیے کرسی کیساتھ چپکے رہیں گے۔

نیگروپونٹے کی نیوز کانفرنساب دیکھنا یہ ہے کہ نیگرپونٹے  کونسی حکمت عملی جنرل مشرف کیساتھ طے کرکے گیے ہیں۔ موجودہ صورتحال سے تو یہی لگتا ہے کہ انہوں نے صرف اور صرف ایسی حکمت عملی پر عمل کرنے پر زور دیا ہوگا جس کی بنا پر جنرل مشرف اور بینظیر اگلی حکومت میں ایک ساتھ ہوں۔ اس ٹارگٹ کو حاصل کرنے کیلے اگر میڈیا پر پابندی اور ایمرجنسی کو لٹکانا بھی پڑا تو نیگروپونٹے کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔

 حزب اختلاف کی آپس میں نااتفاقی اور بینظیر کی چال سے بےخبری ہی جنرل مشرف بینظیر کی حکمت عملی کی کامیابی کا سبب بنیں گی۔

ابھی اس بات کا فیصلہ ہونا باقی ہے کہ کیا میڈیا اور وکلاء کا احتجاج کوئی تبدیلی لا سکے گا یا نہیں؟