ایک طرف حکومت چاہتی ہے کہ ایمرجینسی کے سائے تلے حزب اختلاف کے سرکردہ رہنماؤں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بٹھا کر اور میڈیا پر پابندی برقرار رکھ کر جلد سے جلد انتخابات کرا دیئے جائیں تاکہ وہ اپنی مرضی کے نتائج حاصل کر سکے۔ دوسری طرف اپوزیشن ایک مخمصے کا شکار ہے اور وہ ابھی تک یہی فیصلہ نہیں کرپائی کہ ایسے انتخابات میں حصہ لینا چاہیے یا نہیں۔ اگر حصہ لینا چاہیے تو پھر ابھی تک کوئی بھی سیاسی پارٹی انتخابی عمل کی تیزرفتاری کیساتھ چلتی ہوئی نظر نہیں آرہی اور اگر انتخابات کا بائیکاٹ کرنا چاہیے تو حکومتی انتخابی پلان کو سپوتاز کرنے کیلیے عوامی احتجاج کا کوئی پروگرام مرتب نہیں کرپارہی۔ اپوزیشن کو ابھی تک یہ بھی یقین نہیں ہے کہ وہ بوگس انتخابات کے نتائج کو نہ ماننے کیلیے ایک بھرپور عوامی مہم شروع بھی کرسکے گی یا نہیں۔

حکومتی حلیف پارٹیاں اپنے ایجینڈے پر عمل پیرا ہیں اور خاموشی سے انتخابات کی تیاری میں مصروف ہیں۔ انہیں صدرمشرف کی مکمل حمایت حاصل ہے جنہوں نے ایمرجینسی اور میڈیا پر پابندی برقرار رکھ کر انہیں انتخابات میں کلین سویپ کا موقع فراہم کیا ہوا ہے۔

الیکشن کمیشن نے حکومت کی جلدبازی کا ساتھ دیتے ہوئے الیکشن شیڈول کا اعلان کربھی دیا ہے جس کی رو سے اگلے ہفتے کے اندر اندر سیاسی پارٹیوں کو اپنے اپنے انتخابی نشانات اور امیدواروں کے پیپر جمع کرانے کا حکم دیا گیا ہے۔ دوسرے ہفتے میں امیدواروں کے کاغذات کی جانچ پڑتا ہوگی اور انتخابی ضابطہء حیات کا اعلان کردیا جائے گا۔

اسی دوران جنرل مشرف کے حق میں حلف زدہ سپریم کورٹ فیصلہ دے دے گی اور وہ صدارت کا حلف اٹھا لیں گے۔ حلف اٹھانے کے بعد امید ہے جنرل صاحب وہ وردی اتار دیں گے جس کی دھمکی پچھلے کچھ عرصے سے سپریم کورٹ کو دی جاتی رہی کہ اگر جنرل مشرف کو صدر مان لیا جائے تو وہ وردی اتار دیں گے۔ اس کا مطلب یہی تھا کہ اگر جنرل مشرف کو اگلے پانچ سال کیلیے صدر نہ مانا گیا تو وہ وردی نہیں اتاریں گے۔ اب اٹارنی جنرل بھی آج کی تمام خرابی کا ذمہ سپریم کورٹ کے معزول ججز کو قرار دے رہے ہیں جنہوں نے جنرل مشرف کے اگلے پانچ سال کیلیے غیرقانونی دوبارہ انتخاب کے راستے میں روڑے اٹکائے۔

اب اپوزیشن جس رفتار سے انتخابات کے عمل کا مقابلہ کررہی ہے وہ بہت ہی سست ہے۔ اپوزیشن کی موجودہ سٹریٹیجی سے یہی لگتا ہے کہ شاید بینظیر اور مولانافضل الرحمان تو الیکشن میں حصہ لے لیں اور دوسری جماعتوں کو یہی دو لیڈر اپنی سیاسی چالوں سے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کے جال میں پھنسا دیں

ہماری ناقص عقل تو یہ کہتی ہے کہ اگر منقسم اپوزیشن حکومتی انتخابات کی چال کو ناکام بنانے کیلیے عوام کو سڑکوں پر نہیں لاسکتی تو پھر اسے متحد ہو کر یک نکاتی ایجینڈے پر الیکشن لڑنے کا اعلان کردینا چاہیے اور وہ یک نکاتی ایجینڈا جنرل مشرف کو اگلی ٹرم میں مجبور کردے کہ وہ سپریم کورٹ کے معزول ججز کو بحال کردیں۔ اسی طرح اسمبلیوں میں متحد ہو کر ایسے قوانین بنائیں جن کی مدد سے پاکستان میں دوبارہ پارلیمانی نظام بحال ہوسکے اور فوج کا عمل دخل سیاست سے ختم ہوسکے۔

لیکن خدشہ یہی ہے کہ نہ تو اپوزیشن اکٹھی ہوگی اور نہ چوہدریوں کی سیاست ناکام ہوگی۔ بینظیر اور مولانا فضل الرحمان کی سٹریٹیجی کامیاب ہوگی اور آخری فتح جنرل مشرف کی کامیابی کی شکل میں غیرملکی آقاؤں کی ہوگی۔ یعنی جنرل مشرف کی اگلی حکومت میں چوہدری، بینظیر اور مولانا فضل الرحمان ہوں گے اور اپوزیشن کا کردار برائے نام رہ جائے گا۔

اگر کبھی پاکستان میں انقلاب آیا تو مہنگائی سے تنگ عوام ہی لائیں گے دوسری کوئی صورت انقلاب کی نظر نہیں آتی ۔ تب تک جنرل مشرف کی شکل میں غیرملکی آقا اپنے ایجینڈے پر عمل کرتے رہیں گے اور ملک آہستہ آہستہ روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے قلعے میں محسور ہوتا جائے گا۔