منڈي بہاؤالدين ميں احمديوں کے بيت المرکز ميں شام کي نماز پڑھتےوالے احمديوں پر گولي چلا دي گئ جس کے نتيجے ميں ٨ احمدي ہلاک اور ٢٠ زخمي ہوگۓ۔ کہتے ہيں کہ تين موٹرسائيکل سوار آۓ اور گولياں چلا کر بھاگ گۓ۔
ہم اس واقعے کي بھر پور مزمت کرتے ہيں اور حکومت سے درخوست کرتے ہيں کہ وہ قاتلوں کو گرفتار کرے اور ان کو سزا دے۔ مگر حکومت کيسے قاتلوں کو سزا دے گي کيونکہ حکومت کوتو اسلامي دہشت گردي ختم کرنے سے ہي فرصت نہيں ہے۔ يقين کريں يہ آگ بھي حکومت کي ہي لگائي ہوئي ہے۔ کيونکہ اگر حکومت دوسرے مسلمانوں کو انتہاپسند سمجھ کر مار سکتي ہے تو پھر دوسرے لوگ بھي ايسا کرسکتے ہيں۔
ايک مسلمان ملک ميں دوسرے مزہب کے لوگوں کو بھي آزادي سے رہنے کا حق ہے اور حکومت کا بھي فرض ہے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ احمديوں، ہندوؤں اور عيسائيوں کي بھي حفاظت کرے۔ يہ اسلامي حکومت کا فرض ہے کہ وہ زميّوں کے حقوق کا اتنا ہي خيال رکھے جتنا مسلمانوں کا رکھتي ہے۔ مگر بات يہ ہے کہ پاکستان ميں اسلامي حکومت ہے ہي نہيں تو پھر يہ بے سود توقعات کس لۓ۔
احمديوں کا عقيدہ جو بھي ہو مگر ان کے اس طرح کےسفاقانہ قتل کا کوئي جواز نہيں بنتا۔ اسلام ميں تارکِ اسلام کي سزا قتل ہے مگر احمديوں کي موجودہ نسل تو احمديوں کے گھروں ميں پيدا ہوئي ہے اسلۓ اس کو مرتد کہا جاۓ کہ نہيں يہ ايک پيچيدہ مسلہ ہے۔
پتہ ہے ہم پيدائيشي طور پر گوري پمڑي سے بہت مرعوب رہےہيں اسلۓ گوري چمڑي والا چاہے عيسائي ہو يا يہودي ہميں کوئي غرض نہيں ہم تو اس کے قدموں ميں بچھتے چلے جائيں گے مگر دوسري طرف کالا عيسائي يا پاکستاني احمدي ہم کو ايک نظر نہيں بھاۓ گا اور اس کے قتل کا فتوي دينے ميں ذرا بھي دير نہيں لگائيں گے۔
ہم ايک بار پھر اس قتل کي مزمت کرتے ہيں اور مسلمانوں سے درخواست کرتے ہيں کہ وہ احمديوں کو امن و سکون سے پاکستاں ميں رہنے ديں۔