ایک روز قبل حلف زدہ سپریم کورٹ نے حق نمک ادا کرتے ہوئے جنرل  کو صدارتی انتخاب کیلیے اہل قراد دے دیا اور آج جنرل کی لگائی ہوئی ایمرجنسی کو جائز قرار دے کر ان کے احسانوں کا بدلہ بھی چکا دیا۔مظاہرہ

جیسا کہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں جنرل صاحب کا آخری مکہ وہ نہیں تھا جسے استعمال کرکے ججوں کو گھر بھیجا گیا بلکہ آخری مکہ وہ ہوگا جسے لہرا کر صدارت کا حلف اٹھائیں گے اور بعد میں بینظیر کے ساتھ ملکر حکومت بنائیں گے۔

رہی بات سپریم کورٹ کی تو جب منصف اپنی مرضی سے چنے جائیں تو پھر انصاف بھی اپنی مرضی کا ہی ہو گا۔ معزول ججوں کی اکثریت کو غلط کہ کر صرف ایک شخص کی بات کو سچ مان لیا گیا۔ ہرکوئی جانتا ہے کہ پچاس لوگ جھوٹے نہیں ہو سکتے ہاں ان کے مقابلے میں ایک شخص جھوٹا ہوسکتا ہے مگر جب جنگل کا قانون نافذ ہو تو پھر جس کا جسم بڑا ہوگا وہی بادشاہ ہوگا چاہے وہ بھینسا ہی کیوں نہ ہو۔

دھائی خدا کی اتنی بڑی زیادتی کیخلاف دنیا کی بڑی بڑی جمہوریتیں صرف اپنے مفادات کی خاطر خاموش بیٹھی ہیں اور ایک آمر کی جمہوریت کو ہی سچی جمہوریت کہ رہی ہیں۔ جس طرح ایک بانجھ عورت بچہ پیدا نہیں کرسکتی اسی طرح ایک جنرل جمہوریت نافذ نہیں کرسکتا۔ رہی بات ججوں کی تو انہوں نے جن کا نمک کھایا ہے وہ ان کیخلاف فیصلہ کبھی نہیں دیں گے کیونکہ معزول ججوں کی مثال ان کے سامنے ہے۔ پتہ نہیں ان لوگوں کے ضمیر کس طرح انہیں رات کو سونے دیتے ہوں گے اور یہ لوگ اپنی اولادوں کیلیے کس طرح کی مثالیں چھوڑ کر جائیں گے۔

 ہم اکثر سوچتے ہیں ظالم ڈاکٹر اور ظالم جج دنیا کے پتھر دل انسان ہوتے ہیں جو ایک انسانی جان سے کھیلتے ہیں۔ ڈاکٹر صرف روپے کی خاطر ایک اچھے بھلے انسان کا آپریشن کرکے جیب تو بھر لیتا ہے مگر ایک انسان برباد کر کے رکھ دیتا ہے۔ اب تو پاکستان میں پتے کے آپریشن کے بحانے گردے تک نکالے جانے لگے ہیں۔ انسانی اعضا کی اس چوری پر کیا چور ڈاکٹر رات کو آرام کی نیند سوپاتا ہوگا۔ ایک جج جب معصوم اور بیگناہ مجرم کو رشوت لیکر کر پھانسی کی سزا سناتا ہوگا تو کیا اس کی راتوں کی نیندیں حرام نہیں ہوتی ہوں گی۔

 ایک حاکم جب صرف ذاتی مفاد کی خاطر دوسرے لوگوں کا حق چھینتا ہے تو وہ لازمی مردہ دل ہوتا ہے اور جب وہ ہجر اسود کو چومنے کی تصویر اترواتا ہے تو دل میں لازمی اپنے اپنے آپ کو کوس رہا ہوتا ہے کہ میں کس عذاب میں پھنس گیا ہوں۔ وہ ہجر اسود کو صرف ایک پتھر سمجھتا ہوگا اس سے زیادہ کچھ نہیں۔

پتہ نہیں کب ہمارے حاکم اور قاضی القضاۃ ذاتی مفاد سے اوپر اٹھ کر قوم کی بھلائی کیلیے اقدامات کریں گے اور کب ان کے فیصلے خود غرضی کے بندھنوں سے آزاد  ہوں گے؟؟؟؟