عید الاضحٰی کو عیدالبقر بھی کہا جاتا ہے اور ہمارے پاکستان میں بقر کو بکرا بنا کر اسے بکرا عید بنا دیا گیا ہے۔ شاید یہ

Goats on a tree

 قربانی کیلیے بکرے ذبح کرنے کا شاخسانہ ہے۔ اسی وجہ سے ہوسکتا ہے محاورہ “بکرے کی عید کب تک خیر منائے گی” اور “بکرا بننا” مشہور ہوئے ہیں۔

 اس تصویر میں دیکھیں بکرے کی مائیں قربانی سے بچنے کیلیے درخت پر چڑھ ہوئی ہیں۔ شاید انہوں نے شیر کی خالہ والی کہانی سن رکھی ہے اور ان کا خیال ہے کہ بلی کی طرح وہ بھی درخت پر چڑھ کر اپنی جان بچالیں گی۔ لیکن انہیں یہ معلوم نہیں ہے کہ ان کا واسطہ اس قوم سے پڑا ہے جو جانور تو کجا وہ اپنے بہن بھائیوں کی قربانی دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔  ان کے حکمران نے تو اب تک اپنی رعایا کو بیچ بیچ کر ڈالر کمانے کی داستانیں بڑے فخر سے اپنی کتابوں میں بیان کی ہیں۔

 جب تک بکریاں متحد نہیں ہوتیں اور میر جعفر اور میرصادق نامی بکروں یعنی کالی بھیڑوں کو پکڑ پکڑ کر قربانی کیلیے مسلمانوں کے حوالے نہیں کرتیں ان کا درختوں پر چڑھنا بیکار ہوگا اور وہ ایک ایک کرکے قربان ہوتی رہیں گی۔

ہمارے ایک دوست بڑے مزے کی بات کہا کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بقرعید پر مسلمانوں نے تو خوشیاں منالیں اور گوشت کھا لیا مگر بکرے کا کیا قصور تھا  جو اس دن قربان کردیا گیا؟ شاید وہ تنہا تھا اور اس کی قوم نے سمجھا کہ صرف وہی قربان ہوگا وہ  نہیں۔

اس تصویر کے بکرے نے سب سے صحت مند ہونے کا انعام حاصل کیا ہے۔ اس کا وزن ساڑھے پانچ من ہے۔ اس کے مالک کو ایک لاکھ روپے انعام دیا گیا۔

Heaviest Goat in Pakistan 2007