جب سے نگران حکومت بنی ہے اس کی غیرجانبداری پر شک کیا جارہا ہے۔ ایک تو نگران حکومت کے سربراہ حکمران حکومت کے آدمی ہیں اور اس کے علاوہ وزراء میں بھی کافی لوگ حکومتی پارٹی سے یا تو تعلق رکھتے ہیں یا ہمدردی۔

جب سے میاں شہباز شریف اور میاں نواز شریف کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے ہیں نگران حکومت کی غیرجانبداری مزید متنازع ہوچکی ہے۔ میاں شہباز شریف کے کاغذات نامزدگی کے مسترد ہونے کی وجہ ان کا اشتہاری ہونا ہے مگر بقول ان کے اگر وہ اشتہاری ہیں تو پھر انہیں ابھی تک گرفتار کیوں نہیں کیا گیا۔ آج تو انہوں نے عدالت میں پیش ہوکر اپنی مفروریت بھی ختم کردی اور عدالت نے ان کی عبدوری ضمانت بھی منظور کرلی ہے۔ امید ہے اب ان کی اپیل کا فیصلہ ان کے حق میں ہو گا۔ اگر مفروریت کی بنیاد پر کاغذات نامزدگی مسترد کرنے ہیں توپھر ایم کیو ایم کے ان رہنماؤں کے کاغذات کیوں مسترد نہیں کیے گئے جو الیکشن کے اعلان سے جند روز قبل چپکے سے نہ صرف واپس آچکے ہیں بلکہ کاغذات نامزدگی بھی جمع کراچکے ہیں۔ حالانکہ ان کیخلاف بھی قتل تک کے مقدمات درج ہیں۔

جہاں تک نواز شریف کے کاغذات نامزدگی مسترد کرنے کی وجہ کا تعلق ہے تو وہ بھی سمجھ سے باہر ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ طیارہ سازش کیس میں سزا سیاسی بنیادوں پر سنائی گئی اور پھر ان کی سزا صدر پاکستان نے معاف بھی کردی۔ اب پتہ نہیں کیوں انہیں ابھی بھی سزایافتہ سمجھا جارہا ہے۔ اگر سزا یافتہ کو بنیاد بنا کر کاغذات نامزدگی مسترد کرنے ہیں تو پھر جاوید ہاشمی کے کاغذات مسترد کئے جاتے جنہوں نے بغاوت کیس میں سزا کاٹي۔ شيخ رشيد کے کاغذات مسترد کیے جاتے جنہیں بینظیر نے اپنے دور میں کلاشنکوف رکھنے کے جرم میں سزا سنائی تھی۔

جیسا کہ سب کو معلوم ہے کہ زیادہ ترمقدمات سیاسی رہنماؤں کیخلاف سیاسی بنیادوں پر ہی درج ہوتے ہیں اور ہمیشہ انہیں سزائیں بھی ان کے سیاسی مخالفین کے دور میں ہی سنائی جاتی ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا کیس ہو جس میں کسی کو اس کی اپنی حکومت کے دور میں سزا سنائی گئی ہو۔ اگر نگران حکومت اپنی غیرجانبداری برقرار رکھنا چاہتی ہے تو پھر اسے سب کیساتھ ایک جیسا سلوک روا رکھنا پڑے گا۔ یہ نہیں کہ وہ اپنے چہیتوں کے تمام خون تو معاف کرتی رہے اور مخالفین کے سیاسی مقدمات کو بنیاد بنا کر ان کے کاغذات نامزدگی مسترد کرتی پھرے۔

یہی وقت ہے جب صدرمشرف بھی اپنی غیرجانبداری ثابت کرسکتے ہیں۔ اس وقت چونکہ ملک میں ایمرجنسی نافذ ہے اور تمام اختیارات صدر کے پاس ہیں اسلیے یہ صدر مشرف کا فرض بنتا ہے کہ وہ نگران حکومت پر کڑی نظر رکھیں اور اس طرح کی جانبداری کو روکیں۔ یہی ایک طریقہ ہے جس کو اپنا کر وہ اپنی گری ہوئی ساکھ بحال کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔

شاید اسی جانبداری کی بنا پر کچھ سیاسی جماعتیں انتخابات کا بائیکاٹ کررہی ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ ایسے انتخابات میں حصہ لینے سے بہتر ہے بائیکاٹ کیا جائے جن کے نتائج پہلے سے طے ہوچکے ہوں اور انہیں ہرانے کی پوری تیاری کی جاچکی ہو۔ مگر ہم ان کی اس دلیل کو بھی نہیں مانتے۔ اس طرح وہ سسٹم سے باہر ہوجائیں گے اور برے کو اسمبلی میں روکنے کی کوشش سے بھی محروم ہوجائیں گے۔ ہمیں انتخابات کا بائیکاٹ تبھی کرنا چاہیے جب ہم برے کو طاقت سے روکنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اگر سٹریٹ پاور استعمال نہیں کرسکتے تو پھر انتخابات میں حصہ لینے کے سوا اور کوئی آپشن نہیں بچتی۔