نو مارچ کو جب جنرل ریٹائرڈ صدرمشرف نے باوردی چیف جسٹس سے ملاقات کی فوٹو چھپوا کر اور انہیں گھر بھجوا کر اپنے لیےمصیبت پال لی تو وکلاء نے وہ تحریک چلائی کہ سیاسی جماعتیں جو جنرل ریٹائرڈ صدر مشرف کیخلاف کسی عوامی مزاحمت کی ٹو میں تھیں ان کا ساتھ دینے پر مجبور ہوگئیں۔ وکلاء کو اس تحریک میں یہ بھی فائدہ ہوا کہ کسی نہ کسی بہانے وہ چیف جسٹس کو عوام میں لے آئے جہاں لوگوں نے دل کھول کر چیف جسٹس افتخار چوہدری کی پذیرائی کی۔ اس طرح حکومت بھی تھوڑی ڈر گئی اور اس نے اس تحریک کو دبانے کی کوشش نہیں کی۔ پھر سپریم کورٹ کے ججوں نے انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنے چیف جسٹس کو بحال کردیا۔

اس کامیابی کے بعد چیف جسٹس اور ان کے ساتھی ججز نے یہ سمجھ کر کہ اب عدالتیں آزاد ہوچکی ہیں پہ در پہ سوموٹو ایکشن لینے شروع کردیے۔ جس رفتار سے وہ سوموٹو ایکشن لے رہے تھے لگنے لگا تھا ہمیں انجانے خوف نے گھیر لیا۔ جوں جوں سپریم کورٹ عوامی مسائل کو زیر بحث لانے لگی حکومت کے اندر کھلبلی مچنے لگی۔  اس وقت اگر سپریم کورٹ کے ججز اپنی رفتار کم رکھتے تو شاید وہ زیادہ دیر تک عوامی خدمت کرسکتے۔ بہرحال جنرل ریٹائرڈ صدرمشرف نے جب دیکھا کہ جج ان کی اگلے پانچ سال کی صدارٹی ٹرم میں رکاوٹ بن رہے ہیں تو انہوں نے اپنے بیرونی آقاؤں کی آشیرباد سے ایمرجنسی لگا دی اور ججوں کو گھر بھیج دیا۔

 یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ پچاس سے زیادہ آدمیوں یعنی ججوں کے مقابلے میں ایک آدمی یعنی جنرل ریٹائرڈ نے اپنے آپ کو معتبر جانا اور وہ صدارت کی کرسی پر براجمان ہوگیا۔ یہی ان کی اور ان کے بیرونی آقاؤں کی منشاء تھی۔ اس کے بعد اب اگر وہ ٹی وی چینلز بھی کھول دیں، ایمرجنسی بھی ہٹا دیں، وردی بھی اتار دیں یا انتخابات بھی کرادیں کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ انہوں نے اپنا مقصد حاصل کرلیا ہے۔

رہ گئے بیچارے جج جنہوں اپنے پہلے پی سی او کا کفارہ ادا کرتے ہوئے اپنے عہدوں کی نہ صرف قربانی دی بلکہ برطرفی کے بعد ریٹائرمنٹ کے پیکیج کو بھی تیاگ دیا۔ اب وہ اپنے گھروں میں نظربند ہیں۔

 مولانا فضل الرحمان نے ان ججوں کا ساتھ نہ دینے کا یہ بہانہ گھڑا کہ وہ بھی پہلے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے جج ہی ہیں۔ حالانکہ مولانا فضل الرحمان بھی وہی ہیں جنہوں نے پہلے سترہویں ترمیم منظور کروائی اور پھر جنرل ریٹائرڈ کی مخالفت پر اتر آئے۔ پی پی پی کے منشور میں بھی ججوں کی بحالی کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ مسلم لیگ ن نے بھی ججوں کے ایشو کو ایک طرف رکھ کے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ملک کی چند ایک سیاسی پارٹیوں کو چھوڑ کر تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں نے ججوں کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ جج اس دفعہ بھی پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے والے پرانے ساتھیوں کی طرح اکیلے رہ گئے ہیں اور لگ یونہی رہا ہے کہ کچھ عرصے میں لوگ اس قصے کو بھول جائیں گے اور جج گوشئہ گمنامی میں چلے جائیں گے۔

وکلاء کا طبقہ ایک ایسا ہے جس نے ابھی تک ہار نہیں مانی۔ یہ دوسرا مہینہ جارہا ہے اور وکلاء بڑي عدالتوں میں پیش نہ ہوکر بہت بڑی مالی قربانی دے رہے ہیں۔ ان کیساتھ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور ایک دو وہ سیاسی پارٹیاں جن کی عوامی سپورٹ بہت کم ہے ججوں کی بحالی کی بات کررہی ہیں۔ لگتا ہے عمران خان، قاضی حسین احمد اور محمود اچکزئی کے علاوہ تمام سیاسی رہنماؤں نے ججوں کی برطرفی کو حقیقت مان لیا ہے اور انہیں بھول کر وہ انتخابات کی تیاریوں میں لگ گئے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے کہا ابھی تک وکلاء اور چند سیاسی رہنما اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ وہ عوامی دباؤ سے حکومت کو ججوں کو بحال کرنے پر مجبور کرسکیں۔ مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور ابھی تک وہ سوئی ہوئی عوام سے یہی توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ شاید وہ کسی وقت جاگ پڑیں۔

اب جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور محمود اچکزائی نے انتخابات کے بائکاٹ کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے کوئی حکمت عملی وضح نہیں کی۔  پتہ نہیں آیا وہ وکلاء کیساتھ مل کر بھرپور تحریک چلائیں گے یا پھر اس بات کا انتظار کریں گے کہ انتخابات میں دھاندلی کیخلاف حزب اختلاف جب تحریک چلائے گی تو وہ اس کا حصہ بن جائیں گے۔ لیکن اگر انتخابات کے بعد بڑی بڑی سیاسی جماعتوں نے آپس میں گٹھ جوڑ کرکے حکومت بنا لی تو پھر ججوں کے حمایتی کیا کریں گے یہ ابھی تک واضح نہیں ہے۔

اصول تو یہی کہتا ہے کہ جب تک جج بحال نہ ہوجائیں حکومت کیخلاف احتجاج جاری رہنا چاہئے مگر اس کیلیے حزب اختلاف میں اتفاق نہیں ہوسکا۔ دراصل بڑے بڑے سیاسی لیڈر خود غرض بن کر اپنے اپنے فائدے کی سوچنے لگے ہیں۔ اندر سے یہ لیڈر کبھی نہیں چاہیں گے کہ جج بحال ہو کر ان کی متوقع حکومت کیلیے مسئل بن جائیں۔ اس لیے وہ ججوں کو پرانی روایات کی طرح تنہا چھوڑنے میں ہی اپنی آفیت سمجھ رہے ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ انتخابات کے بعد کس طرح جنرل ریٹائرڈ صدر مشرف اپنے ایمرجنسی والے اقدامات کو آئین کا حصہ بناتے ہیں۔ کیا شریف الدین پرزادہ اس دفعہ بھی کوئی ایسا حل نکال لیں گے کہ صرف صدر کے آرڈر سے یہ مسئلہ حل ہوجائے یا پھر اگلی اسمبلی میں دوتہائی اکثریت حاصل کرنے کیلیے صدر 52 بی کا سہارہ لیں گے۔ انتخابات کے نتائج اور اس کے بعد بننے والی حکومت ایسے آنے والے واقعات ہیں جو پاکستان کے مستقبل کا تعین کریں گے۔ تب تک  آرام کیجئے اور آنے والے حالات کو بے بسی سے تکتے رہیے۔