ہمارا کزن جو تین بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا دو ہفتے قبل موٹرسائیکل پر ایک دوست کیساتھ جارہا تھا کہ سڑک پر بھینس آگئی۔ اس نے بھینس سے بچنے کیلے سڑک ایک طرف کی تو دوسری بھینس بھی آگئ۔ وہ اس سے بچ نہ سکا اور بھینس کیساتھ ٹکرا گیا۔ ٹکر کے بعد وہ اچھل کر بھینس کے اوپر سے ہوتا ہوا سڑک پر جاگرا۔ اس نے ہیلمٹ بھی نہیں پہنا ہوا تھا جس کی وجہ سے اس کے سر پر شدید چوٹ آئی اور وہ فوت ہوگیا۔ اس کا دوست جو پیچھے بیٹھا ہوا تھا بچ گیا۔

ہم لوگ ہیلمٹ کو خواہ مخواہ کا ایک بوجھ سمجھتے ہیں۔۔ ایک پتھر کوٹنے والے مزدور کو اگر آپ ہیلمٹ پہننے کو کہیں گے تو وہ کبھی نہیں پہنے گا۔ اسی طرح موٹرسائیکل سوار پاکستان میں نوے فیصد ہیلمٹ کے بغیر سواری کررہے ہوتے ہیں۔ ہیلمٹ کی افادیت کا تبھی پتہ چلتا ہے جب اس طرح کے حادثے ميں جان چلی جاتی ہے۔ یہی حال سیٹ بیلٹ کا بھی ہے۔ لوگ سیٹ بیلٹ میں کار چلانے کو تھرڈ کلاس حرکت خیال کرتے ہیں۔ مگر جب حادثہ ہوتا ہے تو وہ گاڑی سے نکل کر جب دور سڑک پر گرتے ہیں توپھر انہیں سیٹ بیلٹ کا فائدہ یاد آتا ہے۔

ہمارے ہاں پہلے تو عام سڑکوں کے ارد گرد موٹروے کی طرح کی کوئی باڑ یا دیوار بنی نہیں ہوتی۔ دوسرے جانور جو کھیتوں میں چررہے ہوتے ہیں ان کی رکھوالی کرنے والا اپنے کسی کام میں لگ جاتا ہے اور جانوروں کی دیکھ بھال نہیں کرتا۔ جانور جب سڑک کے پار والے کھیت کا رخ کرتے ہیں تو وہ ٹریفک کیلیے بہت بڑا خطرہ بن جاتے ہیں۔ ہماری حکومتوں کی سستی اور سرمائے کی وجہ سے ہی  آئے دن اس طرح کے جان لیوا حادثے ہوتے رہتے ہیں۔

اب نہ تو حکومت بھینس والے کو اس حادثے کا ذمہ دار قرار دے گی اور نہ کوئی حکومت پرمقدمہ قائم کرسکے گا۔ جوان جو مرا اس کے دو چھوٹے چھوٹے بچے تھے ان کا نہ ہی حکومت ذمہ لے گی اور نہ کوئی این جی او۔ ان بچوں کے چاچے تائے اگر اچھے ہوئے تو وہ اچھی پرورش پالیں گے وگرنہ چائلڈ لیبر پر مجبور ہوجائیں گے۔ بیوہ کو بھی شاید ساری عمر اب ایسے ہی گزارنی پڑے کیونکہ ہمارا معاشرہ دوبچوں والی ماں کو دوسری شادی کا کم ہی موقع فراہم کرتا ہے۔

خدا ہمارے ارباب و کشاد کو عوامی تحفظ کے اقدامات کی توفیق عطا فرمائے۔ خدا ہمارے معاشرے کو اس طرح کی بیوگان کی رہنمائی کی توفیق عطا فرمائے تا کہ وہ پھر سے ایک نارمل زندگی بسر کرنے لگیں۔ آمین