حکام کے آگے پیچھے پھر، حکام سے تیری یاری ہو
اک آدھ منسٹر کا بھی تو اے یار اگر درباری ہو
پھر تو ہی تو ہو دنیا میں، پھر تیری نمبر داری ہو

کیا رنگ برنگی کاریں ہیں کیا رنگ رنگیلے بنگلے ہیں
اس رنگ برنگی دنیا میں کچھ تو بھی ہاتھ یہاں رنگ لے
کچھ یہ رنگ لے، کچھ وہ رنگ لے
کچھ اس ڈھنگ لے، کچھ اس ڈھنگ لے
اس فاقہ مستی میں بھی تو کیوں اکڑا پھرتا ہے کنگلے

اکثر جو یہاں ہیں اہلِ دل ، ہیں نام ہی نام امیر انکے
تو ان کے خزانے دیکھتا جا لیکن نہ ٹٹول ضمیر انکے
اولاد ہیں ابن الوقتوں کی، اجداد تھے چمچہ گیر انکے

جب چمچہ تو بن جائے گا ہر کام تِیرا چل جائے گا
سب کرنی کا ہے پھل بابا، تو کرنی کا پھل پائے گا
جب چکنی چپڑی باتوں سے اس شخص کا دل بہلائے گا
کیا اس کو شرم نہ آوے گی ، کیا تیرے کام نہ آئے گا

سب چھوڑ دے دھندے تخریبی اب کام کوئی تعمیری کر
کچھ اور نہیں بس یار مِرے اس دور میں چمچہ گیری کر