آج کل انتخابات کا زور ہے مگر وہ گہماگہمی نظر نہیں آرہی جو ہونی چاہیے تھی۔ چوٹی کے لیڈروں کے علاوہ دوسرے پارٹی لیڈرز لگتا ہے مقامی سیاست میں مصروف ہیں تبھی ان کے بیانات میڈیا میں نظر نہیں آرہے۔

 ہم نے طالبعلمی کے زمانے میں اپنے کالج کے سٹوڈنٹ یونین کے انتخابات کے موقع پر ایک نظم لکھی تھی۔ اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی یہ ہمارے حسب حال ہی لگتی ہے۔

اس طرح  دورِ  الیکشن  ہے  آج کل زوروں پر

جیسے آگئ  ہو  بہار  جنگل  کے  موروں  پر

ووٹ کا لفظ ہر زبان   پر  ہو  چکا   ہے  عام

آج  کے  لیڈر  کا  صرف  ووٹ مانگنا ہے کام

ہر   لیڈر    ووٹروں  کے   گھر   جاتا   ہے

پہلے  سلام  پھر  ادب سے سر  جھکاتا   ہے

کہتا ہے ہم آپ کے ووٹ کے صحیح حقدار ہیں

باقی  سب   ہیں   بے وفا   ہم   وفادار   ہیں

کوئی  نہیں  جانتا  کہ جیت کر کیا کریں گے

اپنے  لۓ  یا  ہمارے  لۓ  کام   کریں   گے

اس  دور  میں  وہی  مقابلہ  جاۓ  گا   جیت

ہے جس  میں  کھلانے   پلانے   کی   ریت

جاوید سب کو جھوٹی حمایت  کا  یقین  دلاتا  ہے

ارے  ان  کا  داؤ ،  انہی  پر  آزماتا   ہے