موجودہ انتخابات میں عوام کو اتنی خوشی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے جیتنے کی نہیں ہوئی جتنی خوشی  ریٹائرڈ جنرل صدر مشرف کی پارٹی مسلم لیگ ق کے ہارنے کی ہوئی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ لوگوں نے جیتنے کی بجائے ہارنے والوں کی خوشی میں مٹھائیاں تقسیم کی ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ ہماری طرح پسِ پردہ تنقید کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔ اس سے مشکل کام کسی کے سامنے اس پر تنقید کرنا اور اس بھی مشکل کام کسی جابر کے سامنے کلمہء حق کہنا ہوتا ہے۔ لیکن ان سب کاموں پر بھاری طاقت ور کو اپنی طاقت کو غلط استمال کرنے سے روکنا ہوتا ہے۔ یہ بھاری ذمہ داری اب مستقبل کی حکومت پر آ پڑی ہے۔ ایک تو اس نے اپنے وعدوں کے مطابق عدلیہ کی آزادی بحال کرنی ہے، دوسرے ریٹائرڈ جنرل صدر مشرف سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے اور تیسرے شوکت عزیز کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دینا ہے۔

یہ تینوں کام اتنے آسان نہیں جتنے نظر آرہے ہیں۔ ججز کو بحال کرنے میں جہاں ریٹائرڈ جنرل صدر مشرف بہت بڑی رکاوٹ ہیں وہیں بحال شدہ ججز کی طاقت کا ڈر رکاوٹ بنے گا۔ اس طرح یہ بھاری پتھر شاید آنے والی حکومت سے نہ اٹھایا جاسکے۔

ریٹائرڈ جنرل صدر مشرف کی عوامی غیرمقبولیت کے باوجود امریکی حمایت جاری رہنے کا امکان ہے۔ اس طرح اگر اگلی حکومت اپنی حکومت سازی کی ابتدا امریکی سفارتخانے کے اندر امریکیوں اور صدارتی ذرائع سے ملاقات کرکے کرتی ہے جس طرح آج آصف زرداری نے کیا ہے تو پھر سمجھ جانا چاہیے کہ مشرف صاحب وقتی طور محفوظ ہیں اور نئی حکومت کو ان کیساتھ ملکر کام کرنا پڑے گا۔

شوکت عزیز کی پالیسیوں نے پاکستان کی معیشت کو تباہی کے دھانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ ریٹائرڈ جنرل مشرف اور ان کی عبوری حکومت نے یوٹیلٹی کی قیمتوں کے تعین کو آنے والی حکومت پر چھوڑ کر اسے بہت بڑے امتحان میں ڈال دیا ہے۔ اب آنےوالی حکومت اگر بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتیں بڑھائے گی تو مہنگائی کا سیلاب اسے کہیں کا نہ چھوڑے گا۔ جو مہنگائی موجودہ نگران حکومت کے عرصے میں بڑھی ہے وہ مزید بڑھ جائے گی اور اس دفعہ ہوسکتا ہے مزید مہنگائی عوام کے بس سے باہر ہوجائے۔ تجارتی خسارہ، زرمبادلہ کی بیرون ملک ترسیل کی ابتدا، مہنگائی، اور مقامی صنعت کی زبوں حالی آنے والی حکومت کیلیے بہت بڑے امتحان ہوں گے۔

 اگر آنے والی حکومت دوبڑی پارٹیوں کی بجائے ایک بڑی پارٹی نے دوسری چھوٹی چھوٹی پارٹیوں سے ملکر بنائی تو پھر وہ زیادہ مسائل سے دوچار ہوگی۔ بہتری اسی میں ہوگی اگر دوبڑي اکثریتی پارٹیاں ملکر حکومت بنا لیں۔ اس طرح وہ قوم پر پڑنے والے مہنگائی کے بوجھ کو شاید برداشت کراسکیں یعنی عوام کی اشکوئی کرسکیں وگرنہ عوام اب مہنگائی کی وجہ سے نئی حکومت کا چلنا دشوار بنا دیں گے۔

ہماری نظر میں آنے والا وقت موجودہ وقت سے سخت ہوگا اور ہوسکتا ہے نئی حکومت دوسری پارٹیوں کے تعاون نہ ملنے کی وجہ سے زیادہ دیر نہ چل سکے۔ ویسے بہتری اسی میں ہوگی کہ حکومت کی ناکامی کی صورت ميں اتنخابات دوبارہ کرائے جائیں تاکہ کوئی ایک پارٹی حکومت سازی کرسکے۔ ویسے بھی موجودہ اتنخابات میں نگران حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کو کھل کر کینویسنگ کا موقع نہیں مل سکا جس کی کسر وہ اگلے انتخابات میں نکال سکتی ہیں۔