میرے مطابق کے ڈاکٹر شاہد مسعود پر پابندی کیا لگی وہ امریکہ چلے گئے اور پی ایچ ڈی میں داخلہ لے لیا۔ ان کی کمی پوری کرنے کیلیے آج ہم نے ان کے پروگرام کے عنوان میرے مطابق کو استعمال کیا ہے امید ہے ڈاکٹر صاحب اس گستاخی کو معاف فرمائیں گے۔ 

ابھی تک نہ تو پیپلزپارٹی حکومت سازی کیلیے کوئی منصوبہ سامنے لاسکی ہے اور نہ ہی صدر ریٹائرڈ جنرل مشرف نے اسمبلی کا اجلاس بلایا ہے۔ اندرونِ خانہ جو کھچڑی پک رہی ہے اس کی ابھی تک کسی کو ہوا نہیں لگ رہی۔ اب پتہ نہیں صدرمشرف اور آصف زرداری کے درمیان معاملات طے نہیں ہو پارہے،  پی پی پی اور مسلم لیگ میں اختلافات باقی ہیں یا پھر پیپلزپارٹی کے اندر اقتدار کی کھینچاتانی ہورہی ہے۔ لگتا ہے پھڈا بہت بڑا ہے جو ابھی تک امریکی سفارت کاروں سے بھی حل نہیں ہورہا۔ امریکی سفیر نے اب تک پاکستان کا کوئی سیاستدان نہیں چھوڑا جس سے ملاقات نہ کی ہو مگر اقتدار کی رسہ کشی کسی انجام کو نہیں پہنچ رہی۔

بینظیر کی شہادت سے سب سے زیادہ فائدہ رنڈوے آصف زرداری کو پہنچا ہے جو دبئی کی گمنام زندگی سے ایک دم پاکستان کی سیاست کا مرکز بن گئے۔ جب بھی بینظیر کی شہادت کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کی جائیں گی۔ آصف زردای کے اس فائدے اور میرمرتضٰی بھٹو کے قتل کو ضرور سامنے رکھا جائے گی۔

چوہدری اعتزاز احسن کو پیپلزپارٹی کوئی لفٹ نہیں کرارہی اور وہ بھی پیپلزپارٹی سے فاصلہ رکھے ہوئے ہیں۔ آصف زرداری سمیت دوسرے جیالے یا تو اعتزاز کے سیاسی قد کاٹھ سے ڈرے بیٹھے ہیں یا پھر اعتزاز کی بات نہیں سنی جارہی۔

مولانا فضل الرحمان جو اسمبلی میں چار پانچ سیٹوں کے مالک ہیں نے بلوچستان میں اپنی حکومت کا شوشہ چھوڑ کر خوب جگ ہنسائی کرائی ہے۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے ہرصوبے میں مختلف پارٹیوں کی حکومتوں کی بنیاد پر بلوچستان میں مولانا کی پارٹی کو حکومت دے دی جائے جو نہ نو میں اور نہ تیرہ میں ہو۔

ججوں کی بحالی کیلیے سب سے بڑا عزر یہ پیش کیا جارہا ہے کہ آئین اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔ لیڈر حضرات یہ بھی کہتے سنے گئے ہیں کہ اگر جج بحال کردیے گئے تو موجودہ ججوں کا کیا بنے گا۔ لگتا ہے قوم کو ورغلانے کی کوششیں ہو رہی ہیں وگرنہ حل سیدھا سا ہے۔ اگر ججوں کو گھر بھیجنے کیلیے قانون رکاوٹ نہیں بنا تو پھر ان کی بحالی کیلیے بھی رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔ موجودہ ججوں کی فکر کسی کو نہیں کرنی چاہیے بلکہ انہیں تو الٹی سزا دینی چاہیے کیونکہ انہی کی کارستانیوں کی وجہ سے معزول ججز گھروں میں نظربند ہیں۔

ایم کیو ایم کے اکلوتے ممبرپارلیمنٹ کو آزادکشمیر کی اسمبلی میں مار پیٹ کر کوئی اچھی روایت نہیں ڈالی گئی۔ وزیراعظم کے بیٹے کے بیرون ملک دورے میں شامل خواتین کے متعلق ان کا سوال جائز تھا اور سپیکر نے بھی سوال کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ پتہ نہیں وزیرمذہبی امور کو کیا سوجھی،  انہوں نے اپنے باریش نورانی چہرے کا بھی لحاظ نہیں کیا اور کھوکھر صاحب کو دو تپھڑ جڑ دیے۔سابقہ روایات کی روشنی میں امید نہیں ہے کہ سپیکر نے جو انکوائری کمیٹی بٹھائی ہے وہ ایمانداری سے مجرمین کا تعین کرے گی اور سپیکر مجرمین کو عبرت ناک سزا دیں گے۔ لگتا ہے معاملہ چند دنوں میں زیرزمین چلا جائے گا اور سب اپنے اپنے کاموں میں دوبارہ مصروف ہو جائیں گے۔