آج بارہ ربیع الاول ہے یعنی مسلمانوں کے  پییغمر صلعم کی سالگرہ۔ اس دن دنیا میں وہ ہستی تشریف لائی جس نے بہت تھوڑے عرصے میں دنیا بدل کر ایسا ریکارڈ قائم کیا جو آج تک کوئی نہیں توڑ سکا۔ نبی پاک صلعم کی ریکارڈ ساز شخصیت سے صرف مسلمانوں نے ہی نہیں بلکہ غیروں نے بھی رہنمائی حاصل کی۔ اسی لیے آپ صلعم کو رحمت العالمین کہا گیا۔ جس جس نے آپ صلعم کی سنت ترک کی وہ  زوال پذیر ہوا اور دوبارہ اٹھ نہ سکا۔ آپ صلعم کی سخاوت، ایمانداری، انصاف، سچائی، سچی لگن اور جہدمسلسل کے اوصاف جس جس نے اپنائے وہ روشنیوں کے مینار بن کر چمکے اور جس جس نے ان اوصاف کو بیکار سمجھ کر فراڈ، دھوکہ، لوٹ کھسوٹ، بے ایمانی، جھوٹ اور ریاکاری کو اپنایا اس کا عبرت ناک انجام ساری دنیا نے دیکھا۔

ہم یعنی آج کے مسلمان آپ صعلم کی سنت کے تارک ہو چکے ہیں۔ مساجد کو بارہ ربیع الاول کو باہر سے روشن کرتے ہیں مگر مساجد کے اندر اصلاح کیلیے داخل ہونے سے کتراتے ہیں۔ بارہ ربیع الاول کو ایک سالگرہ کی طرح مناتے ہیں اور پھر اس کے بعد دنیا کی بھیڑ میں کھو جاتے ہیں۔ نہ ہمیں اپنے نبی صعلم کا اسوہ حسنہ یاد رہتا ہے اور نہ ان کے احکام۔ آج مسلمانوں کی بربادی کی سب سے بڑی وجہ ان کی ریاکاری ہے۔ ہم مسجد نبوی اور مسجد احرام سمیت اپنی مساجد کو کشادہ کرتے رہتے ہیں مگر ان مساجد کے موجد کی باتوں پر عمل نہیں کرتے۔ ہم صرف دکھاوے کیلیے کام کرنے لگے ہیں۔ دن کے اجالے میں ہم اپنے نبی کی محبت کا دم بھرتے ہیں اور رات کے اجالے میں اپنے مذہب کے ہونے پر بھی گمان کرنے لگتے ہیں۔

ہم مسلمان اور ہمارے حکمران ریاکاروں کا ایسا ٹولا ہیں جو کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں۔ حکمران نبی پاک صعلم کی سالگرہ پر شدومد سے بیانات جاری کرتے ہیں مگر سال کے باقی 364 دن حرام کاری میں گزار دیتے ہیں۔ کوئی حکمران شراب پینے اور ناچ گانے کو روشن خیالی کا نام دے دیتا ہے اور کوئی دہشت گردی کے نام پر غیروں کی مدد سے اپنوں کا ہی سفایا کرتا نظر آتاہے۔ ایک طرف ہمارے حکمران عید کی نماز پڑھنے مسجد جاتے ہیں تو دوسری طرف انہی مساجد کو سکیورٹی کے نام پر گرانے کا حکم دیتے ہیں۔

ہمارے نبی صعلم نے جب مکہ فتح کیا تو حرم میں داخل ہونے والے کو پناہ دینے کا اعلان کردیا۔ آج ہمارے حکمرانوں کو جب غیروں کے سامنے اپنے نمبر بنانے پڑے تو انہوں نے مسجد پر حملہ کر کے اس کو معصوموں کے خون سے لال کردیا۔

ہمارے نبی صعلم اپنے کردار کی وجہ سے صادق اور امین کہلائے۔ ہمارے حکمران جنہوں نے بارہ ربیع الاول کے موقع پر آپ صلعم کی مدح سرائی بھی کی ہوگی وعدہ خلافی کرکے اسے ملکی مفاد کا نام دے دیا۔ ہمارے نبی نے زبانی قول نبھائے مگر ہمارا حکمران اس لیے وعدہ ایفا نہیں کرتا کہ وہ زبانی تھا تحریر شدہ نہیں تھا۔

ہمارے نبی نے کبھی نماز قضا نہیں کی، آج ہماری اکثریت پانچ وقت کی نماز کی تارک ہو چکی ہے۔ ہمارے نبی نے اشیا کی ملاوٹ سے منع فرمایا، آج مسلمانوں کی تیارشدہ پروڈکٹ پر ملاوٹ کا لیبل لگ چکا ہے۔ ہمارے آباؤاجداد نے نبی صعلم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اپنے قول و فعل سے انڈونیشیا تک کو مسلمان بنا دیا مگر آج غیر ہمارے افعال کی وجہ سے ہمارے مذہب سے نفرت کرتے ہیں۔

دراصل ہم ظاہری طور پر مساجد کو روشن کرکے سمجھ رہے ہیں کہ ہم اپنے نبی صعلم کیساتھ محبت کرتے ہیں جبکہ ہم اپنے روزانہ کےمعمولات سے ثابت کر رہے ہیں کہ ہم اپنے نبی صعلم  سے نفرت کرتے ہیں۔ دراصل ہم یہ نہیں جانتے کہ ظاہری روشنی باطن کے اندھیرے کو ختم نہیں کرسکتی۔ باطن کا اندھیرا ختم نہیں ہو گا جب تک ہم اپنے نبی صعلم کے احکامات پر عمل نہیں کریں گے۔ تب تک ہم اندھیروں میں ہی بھٹکتے رہیں گے اور غیر ہمیں غلام بنائے رکھیں گے۔